الحمد للہ.
الخطوبۃ ( منگنى ) كا لفظ بہت سے لوگوں كے ہاں عقد نكاح كے بعد اور رخصتى سے قبل پر بولا جاتا ہے، اگر تو سوال سے يہى مراد ہے تو پھر آپ كے مابين جو كچھ ہوا اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ عقد نكاح مكمل ہوتے ہى عورت مرد كى زوجيت ميں آجاتى ہى، تو اس طرح ہر ايك دوسرے سے نفع اٹھا سكتا ہے.
اور اگر خطبہ يعنى منگنى سے مراد صرف شادى كا وعدہ اور شادى كرنے پر اتفاق ہے اور عقد نكاح نہيں ہوا تھا تو پھر آپ كے مابين جو كچھ ہوا ہے وہ حرام فعل تھا، اور منگنى كى مدت كے مابين شريعت نے لڑكى كو ديكھنے سے زيادہ كچھ مباح قرار نہيں كيا، اور ديكھنے كا مقصد بھى يہ ہے كہ مرد اور عورت منگنى اور شادى كا عزم كر سكيں.
اور آپ دونوں پر ـ اس حالت ميں ـ توبہ و استغفار كرنى اور اپنے كيے پر ندامت واجب ہے، ان گناہوں كے كفارہ كے ليے عقد نكاح ہى كافى نہيں، بلكہ آپ پر توبہ و استغفار واجب ہے.
اور كفارہ كے بارہ ميں گزارش ہے كہ آپ دونوں نے جو كچھ كيا ہے اس كا كوئى معين كفارہ تو نہيں ہے، صرف يہ ہے كہ جو شخص توبہ كرتا ہے اس كے ليے مشروع ہے كہ وہ نفلى نماز، و روزہ، اور صدقہ وغيرہ جيسے اعمال صالحہ زيادہ سے زيادہ كرے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور يقينا ميں اسے بہت زيادہ معاف كرنے والا ہوں جو توبہ كرتا ہے، اور ايمان لاتا اور نيك اعمال كرتا ہے اور پھر ہدايت پر رہتا ہے طہ ( 82 ).
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ مندرجہ ذيل سوالات كے جوابات ضرور ديكھيں:
( 3215 ) اور ( 12182 ) اور ( 2572 ).
واللہ اعلم .