سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

قرض كا خطرناك معاملہ

71183

تاریخ اشاعت : 29-05-2007

مشاہدات : 11773

سوال

ميں اپنے خاوند كى معاشى حالت سدھارنے كے ليے ملازمت كرتى ہوں، كيونكہ خاوند كى تنخواہ ہمارى بنيادى ضروريات اور ہمارى اولاد كى تعليم كے اخراجات پورى نہيں كر سكتى، ميں نے قرض كى ادائيگى كے ليے كچھ لوگوں سے قرض حاصل كيا، اور الحمدللہ ميں يہ كہہ سكتى ہوں كہ اللہ تعالى مال كے ساتھ ہمارے ايمان كى آزمائش كر رہا ہے، ميں ايك روز قرض ادا نہ كرنے كى صورت ميں مسلمان كى كيا سزا ہے كے موضوع پر درس ميں شريك تھى، اسى طرح اس درس ميں يہ بھى بيان كيا گيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مقروض ميت كى نماز جنازہ ادا كرنے سے انكار كر ديا تھا اور درس دينے والے شخص نے اس كى ادائيگى ميں ممد و معاون ايك دعا بھى بتائى ليكن ميں اسے لكھ نہيں سكى.
آپ سے گزارش ہے كہ قرض كى ادائيگى نہ كرنے كى سزا بتائيں، اور قرض كى ادائيگى كے ليے ممد و معاون دعا بھى بتائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقھاء كرام نے قرض كى تعريف كرتے ہوئے كہا ہے كہ: " يہ ايسا حق ہے جو كسى كے ذمہ ہوتا ہے"

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 21 / 102 ).

اور دين كے لغوى معنى انقياد اور الذل كے ارد گرد گھومتے ہيں، اور شرعى و اصطلاحى اور لغوى معنى كے درميان ربط ظاہر ہے، كہ مقروض شخص اسير اور قيدى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا تمہارا ساتھى اپنے قرض كے بدلے قيدى ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3341 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

دوم:

شريعت اسلاميہ ميں قرض كے معاملہ ميں بہت سختى آئى ہے، اور اس سے بچنے كا كہا گيا ہے، اور اس سے حتى الامكان احتراز كرنے كى ترغيب دلائى گئى ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر نماز ميں درج ذيل دعا پڑھا كرتے تھے:

" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ "

اے اللہ ميں تيرى پناہ پكڑتا ہوں گناہ سے اور قرض سے "

تو ايك كہنے والے نے عرض كيا:

آپ قرض سے اتنى كثرت كے ساتھ پناہ كيوں مانگتے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بلا شبہ جب آدمى مقروض ہو جاتا ہے ( يعنى جب قرض ليتا ہے ) تو بات چيت ميں جھوٹ بولتا ہے، اور وعدہ كرتا ہے تو وعدہ خلافى كرتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 832 )صحيح مسلم حديث نمبر ( 589 )

اور امام نسائى رحمہ اللہ نے محمد بن جحش رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بيٹھے ہوئے تھے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارك آسمان كى طرف اٹھايا اور پھر اپنى ہتھيلى اپنى پيشانى پر ركھى اور فرمانے لگے:

سبحان اللہ! كتنى سختى اور تشديد نازل كى گئى ہے ؟

تو ہم خاموش رہے اور سہم گئے، اور جب دوسرے دن ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى سى سختى اور تشديد تھى ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے! اگر كوئى شخص اللہ كى راہ ميں قتل كر ديا جائے، پھر اسے زندہ كيا جائے، پھر قتل كر ديا جائے، اور پھر زندہ كيا جائے اور پھر قتل كر ديا جائے، اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت ميں داخل نہيں ہو گا، حتى كہ اس كا قرض ادا نہ كر ديا جائے"

سنن نسائى حديث نمبر ( 4605 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 4367 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے شخص كى نماز جنازہ نہيں پڑھائى تھى جس كے ذمہ دو دينار قرض تھے، حتى كہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كا قرض ادا كرنے كى حامى بھرى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ ادا كى، اور جب دوسرے دن ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اب اس كى چمڑى ٹھنڈى ہوئى ہے "

مسند احمد ( 3 / 629 ) امام نووى رحمہ اللہ نے الخلاصۃ ( 2 / 931 ) ميں اور ابن مفلح نے الآداب الشرعيۃ ( 1 / 104 ) ميں نقل كيا ہے، اور مسند احمد كے محققين نے اسے حسن قرار ديا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں كہتے ہيں:

" اور اس حديث ميں قرض كے معاملہ كى سختى كا شعور ملتا ہے، اور يہ كہ بغير ضرورت قرض حاصل نہيں كرنا چاہيے " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 547 ).

اور ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص اس حالت ميں فوت ہوا كہ وہ تين اشياء تكبر، خيانت، اور قرض سے برى ہو تو وہ جنت ميں داخل ہوگا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1572 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مؤمن كى جان اس كے قرض كى بنا پر معلق رہتى ہے حتى كہ اس كا قرض ادا كر ديا جائے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1078 ).

مباركپورى رحمہ اللہ " تحفۃ الاحوذى " ميں لكھتے ہيں:

" قولہ: ( مؤمن كى جان معلق رہتى ہے ) سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں: يعنى وہ اپنى اچھى اور كريم جگہ سے محبوس رہتا ہے.

اور عراقى كا كہنا ہے: يعنى اس كا معاملہ موقوف رہتا ہے، نہ تو اس كى نجات اور نہ ہى اس كى ہلاكت كا حكم ہوتا ہے،حتى كہ ديكھا جاتا ہے كہ آيا اس كا قرض ادا كيا جاتا ہے يا نہيں " انتہى.

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 4 / 164 ).

اور بہت سے سلف حضرات سے بھى قرض كے بچنے كى تحذير آئى ہے:

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ہے:

" تم قرض سے بچ كر رہو، كيونكہ اس كى ابتداء غم ہے، اور آخر لڑائى ہے "

موطا امام مالك ( 2 / 770 ).

اور مصنف عبد الرزاق ميں ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:

( اے حمران! اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو، اور مقروض ہو كر فوت نہ ہونا، كيونكہ تيرى نيكياں لے لى جائينگى، اور وہاں نہ تو كوئى دينار ہوگا اور نہ ہى كوئى درہم "

ديكھيں: مصنف عبد الرزاق ( 3 / 57 ).

سوم:

قرض كے متعلق اتنى شديد سختى اس ليے آئى ہے كہ اس كى بنا پر معاشرے ميں كئى قسم كى خرابياں پيدا ہوتى اور معاشرے كے فرد ميں بھى كئى خراب چيزيں اور فساد پيدا ہوتا ہے.

انفرادى پيدا ہونے والى خرابيوں كا ذكر كرتے ہوئے امام قرطبى رحمہ اللہ " الجامع لاحكام القرآن " ميں كہتے ہيں:

" ہمارے علماء كا كہنا ہے: اس ميں كچھ تذليل سى ہے جس ميں ہر وقت دل اور خيالات مشغول رہتا ہے، اور اس كى ادائيگى كا ہر وقت غم رہتا ہے، اور قرض خواہ سے ملتے وقت مقروض حقير اور تذليل محسوس كرتا ہے، اور اس كا وقت آنے تك تاخير كى خواہش ركھتا ہے، اور بعض اوقات تو ادائيگى كا وعدہ كرتا ہے ليكن وعدہ خلافى كر جاتا ہے، يا پھر قرض خواہ كے ساتھ بات چيت كرتے وقت جھوٹ بولتا ہے، يا قسم اٹھا كر قسم كا پاس نہيں كرتا، اس كے علاوہ اور بھى بہت كچھ.

اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ ادائيگى كيے بغير ہى فوت ہو جائے تو وہ اس قرض كے عوض ميں رہن رہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مؤمن كى جان اس كى قبر ميں قرض كے بدلے گروى اور رہن ركھى رہتى ہے حتى كہ اس كا قرض ادا كر ديا جائے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1078 ).

يہ سب اسباب قرض كى قباحت ہيں جس سے اس كا حسن و جمال ختم ہو جاتا ہے، اور اس كے كمال ميں كمى ہو جاتى ہے " انتہى.

ديكھيں: الجامع لاحكام القرآن ( 3 / 417 ).

اور معاشرے ميں پيدا ہونے والى خرابيوں كے متعلق متخصص حضرات نے بيان كيا ہے كہ اس ميں كچھ ايسى خرابياں بھى ہيں جو ايك مثالى اقتصادى حالت كے ليے بہت ہى خطرناك ہيں:

1 - جلدى بڑھوتى كى خواہش، يا وقتى افسوس كى زيادتى.

2 - ذمہ دارى كى روح، اور اپنى ذات پر اعتماد ميں كمزورى پيدا ہونا.

3 - مال كى غير صحيح تقسيم.

ان خرابيوں كو تفصيلا سمجھنے كے ليے آپ فضيلۃ الشيخ سامى السويلم كا " موقف الشريعۃ الاسلاميۃ من الدين " كے عنوان سے مقالہ كا مطالعہ كريں ( 6 - 11 ).

چہارم:

جو كچھ اوپر بيان ہوا ہے اس پر چلتے ہوئے علماء كرام نے قرض كے جواز كے ليے تين شرطيں لگائي ہيں:

1 - مقروض شخص ادائيگى كا عزم ركھتا ہو.

2 - اسے علم ہو، يا پھر اس كے غالب گمان ہو كہ وہ قرض كى ادائيگى كى قدرت ركھتا ہے.

3 - وہ كسى مشروع اور جائز امر ميں قرض لے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ " التمھيد " ميں لكھتے ہيں:

" وہ قرض جس كى بنا پر مقروض شخص كو جنت ميں داخل ہونے سے روك ديا جائيگا واللہ اعلم وہ قرض ہے جس كى ادائيگى نہ كى گئى ہو اور نہ ہى اس كى ادائيگى كى وصيت كى ہو، يا پھر ادائيگى كى استطاعت ہونے كے باوجود ادا نہ كيا گيا ہو، يا اس نے بغير حق كے قرض ليا ہو، يا فضول خرچى كے ليے ليا اور اس كى ادائيگى نہ كر سكا.

ليكن جس نے كسى واجب كردہ حق يعنى فقر و فاقہ يا گزران زندگى كے ليے قرض حاصل كيا اور ادا كيے بغير ہى فوت ہوگا، اور نہ ہى ادائيگى كے ليے كچھ چھوڑا تو اس كے بدلے ميں اللہ تعالى اسے ان شاء اللہ جنت ميں جانے سے نہيں روكےگا " انتہى.

ديكھيں: التمھيد ( 23 / 238 ).

پنجم:

ميرى سوال كرنے والى عزيز بہن جب آپ اس قرض كے معاملہ ميں مبتلا ہوچكى ہيں تا كہ اپنے خاوند اور خاندان كى زندگى گزارن كى مشكلات حل كرنے ميں ممد و معاونت كر سكيں، تو اس حسن معاشرت كى بنا پر آپ كو اللہ تعالى اجر عظيم عطا فرمائيگا، ميرى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو اس كا اجروثواب عطا فرمائے.

آپ يہ علم ميں ركھيں كہ اس قرض كى ادائيگى ميں اللہ تعالى آپ كى مدد فرمائيگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس شخص نے لوگوں سے مال ليا اور وہ اس كى ادائيگى كرنا چاہتا ہو، تو اللہ تعالى اس كى طرف سے ادائيگى كرتا ہے، اور جس نے اسے ضائع كرنے كے ليے ليا تو اللہ تعالى اسے ضائع كرديتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2387 ).

اس پر آپ قرض كى ادائيگى كى حرص اور حقيقى كوشش سے مدد ليں اور اللہ تعالى پرتوكل اور بھروسہ ركھيں، اور دعا كرتى رہيں كہ اللہ تعالى آپ كے ليے ايسى آسانى پيدا فرمائے جس سے آپ اس قرض كى ادائيگى كر سكيں.

سنت نبويہ ميں كئى ايك دعائيں ہيں جو بالخصوص قرض كى ادائيگى ميں ممد و معاونت كے ليے وارد ہيں، جو درج ذيل ہيں:

1 - سھيل رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ابو صالح ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم ميں سے كوئى شخص سونے كا ارادہ كرے تو وہ اپنے دائيں پہلو پر ليٹ كر يہ كلمات پڑھا كرے:

" اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنْ الْفَقْرِ "

اے اللہ آسمان و زمين كے پروردگار، اور عرش عظيم كے مالك، ہمارے اور ہر چيز كے رب، دانے اور گٹھلى كو پھاڑنے والے، اور توراۃ اور انجيل اور فرقان كو نازل كرنے والے، ميں ہر چيز كے شر سے تيرى پناہ پكڑتا ہوں جس كى پيشانى تو پكڑے ہوئے ہے، اے اللہ تو ہى اول ہے تجھ سے پہلے كوئى چيز نہيں، اور ہى آخر ہے تيرے بعد كوئى چيز نہيں، اور تو ہى ظاہر ہے تيرے اوپر كوئى چيز نہيں، تو ہى باطن ہے تيرے ورے كوئى چيز نہيں، ہم سے قرض ادا كردے، اور ہميں فقر و فاقہ سے غنى كر دے "

وہ يہ روايت ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا كرتے تھے.

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2713 ).

2 - على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے پاس ايك غلام آيا جس نے اپنے مالك سے مكاتبت كر ركھى تھى، اور وہ كہنے لگا: ميں اپنى كتابت كى ادائيگى سے عاجز ہوں، اس ليے آپ ميرى مدد اور ميرا تعاون كريں.

تو على رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے، ميں تجھے كچھ كلمات سكھلاتا ہوں جو مجھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سكھائے تھے، اگر تيرا قرض جبل صير جتنا بھى ہو تو اللہ تعالى تجھ سے ادا كر ديگا ؟! وہ كہنے لگے: يہ كلمات كہا كرو:

" اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ "

اے اللہ مجھے اپنے حلال كے ساتھ اپنے حرام كردہ سے كافي ہو جا، اور مجھے اپنے فضل كے ساتھ اپنے علاوہ سب سے غنى كر دے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2563 ) امام ترمذى نے اس حديث كو حسن غريب كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

كتابت يہ ہے كہ غلام اپنے آقا كے ساتھ آزادى كا سودا كرے كہ ميں اتنا مال دے كر آزاد ہو جاؤنگا.

اور جبل صير طئى قبيلے كا ايك پہاڑ ہے، اور ايك روايت يہ بھى ہے كہ يہ صبير پہاڑ ہے.

3 - ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك روز مسجد ميں داخل ہوئے تو ايك انصارى شخص جسے ابو امامہ كہا جاتا تھا كو ديكھا، تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے ابو امامہ كيا بات ہے ميں ديكھ رہا ہوں كہ تو نماز كے وقت كے بغير مسجد ميں بيٹھے ہوئے ہو ؟!

تو اس نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے پريشانى لاحق ہے، اور قرض مجھ پر ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

كيا ميں تجھے چند ايسے كلمات نہ سكھاؤں جب تم يہ كلمات پڑھو تو اللہ تعالى تيرا غم دور كر ديگا، اور تيرا قرض بھى ؟

راوى كہتے ہيں: ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيوں نہيں!

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: جب صبح كرو اور جب شام كرو تو يہ كلمات پڑھا كرو:

" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ "

اے اللہ ميں فكر و غم اور پريشانى سے تيرى پناہ مانگتا ہو، اور ميں عاجز ہوجانے، اور سستى و كاہلى سے تيرى پناہ مانگتا ہوں، اور ميں بزدلى اور بخل سے تيرى پناہ مانگتا ہوں، اور ميں قرض كے چڑھ جانےاور آدميوں كے غلبہ سے تيرى پناہ مانگتا ہوں "

وہ كہتے ہيں: ميں نے ايسا ہى كيا تو اللہ تعالى نے ميرا غم اور فكر و پريشانى دور كردى، اور ميرا قرض بھى اتار ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1555 ) اس كى سند ميں غسان بن عوف ہے جس كے متعلق امام ذہبى رحمہ اللہ كہتے ہيں: غير حجۃ ہے، اسى ليے شيخ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف ابو داود ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے، ليكن مذكورہ دعاء جو كہ يہ ہے:

" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ ..... "

ابو اس ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ كے علاوہ بھى صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى حديث سے ثابت ہے . واللہ تعالى اعلم.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب