اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نماز جنازہ ميں سورۃ فاتحہ پڑھنے كا حكم

72221

تاریخ اشاعت : 01-04-2006

مشاہدات : 17573

سوال

موطا امام مالك كى درج ذيل حديث كا درجہ كيا ہے؟
نافع رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ:
" عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نماز جنازہ ميں سورۃ فاتحہ نہيں پڑھا كرتے تھے"

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ اعلى درجہ كا صحيح ہے، امام مالك رحمہ اللہ تعالى نے " موطا " ميں نافع عن ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے.

ديكھيں: موطا امام مالك حديث نمبر ( 535 ).

بعض علماء كرام اسے سلسلۃ الذھبيہ قرار ديتے ہيں، اور يہ صحيح الاسانيد ـ يا من اصح الاسانيد " ہے.

اس كے الفاظ يہ ہيں: نافع بيان كرتے ہيں كہ: عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نماز جنازہ ميں قرآت نہيں كيا كرتے تھے.

اور " لا يقراء " يعنى قرآت نہيں كرتے تھے كا معنى يہ ہے كہ: وہ سورۃ فاتحہ وغيرہ نہيں پڑھتے تھے.

اہل علم كے ہاں يہ مسئلہ مختلف فيہ مسائل ميں معروف ہے، بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ نماز جنازہ ميں قرآت ركن ہے، اور بعض كا كہنا ہے كہ: يہ ركن نہيں، اور نہ ہى مستحب ہے، اور كچھ دوسرے علماء كرام نے متوسط راہ اختيار كرتے ہوئے كہا ہے كہ يہ واجب نہيں بلكہ مستحب ہے, شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے يہى اختيار كرتے ہوئے كہا ہے:

" نماز جنازہ ميں قرآت كے متعلق علماء كرام كے تين قول ہيں:

ايك قول يہ ہے كہ: كسى بھى حالت ميں مستحب نہيں، جيسا كہ امام ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہ اللہ تعالى كا مسلك ہے.

اور دوسرا قول يہ ہے كہ: بلكہ سورۃ فاتحہ كى قرآت واجب ہے، جيسا كہ اصحاب شافعى، اور احمد كا قول ہے.

اور ايك قول يہ ہے كہ: بلكہ اسميں سورۃ فاتحہ كى قرآت سنت ہے، اگر نہ بھى پڑھے بلكہ بغير قرآت كے دعاء كرے تو جائز ہے، اور صحيح بھى يہى ہے" انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 2 / 121 ).

جو ظاہر ہوتا ہے ـ اورعلم تو اللہ كے پاس ہے ـ وہ يہ كہ سورۃ فاتحہ نماز جنازہ كے اركان ميں سے ايك ركن ہے، اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كے عموم ميں شامل ہے:

" جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھى اس كى كوئى نماز نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 595 ).

شائد ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے اس قول كى بنا پر ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ـ بعض اوقات ـ سورۃ فاتحہ بلند آواز سے پڑھا كرتے تھے، حالانكہ سرى طور پر پڑھنا سنت ہے، ان سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے فرمايا: تا كہ انہيں معلوم ہو جائے كہ يہ سنت ہے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1249 ).

ان كے قول يہ سنت ہے سے يہ مراد نہيں كہ يہ مستحب ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت مراد ہے، يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے پڑھا تھا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نماز جنازہ ميں سورۃ فاتحہ ركن ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھى اس كى كوئى نماز نہيں "

اور نماز جنازہ بھى نماز ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم ان ميں سے مرنے والوں ميں كسى پر كبھى بھى نماز جنازہ نہ پڑھنا .

چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالى نےاسے نماز كا نام ديا ہے، اور اس ليے بھى كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے نماز جنازہ ميں سورۃ فاتحہ پڑھى اور كہنے لگے:

" تا كہ تمہيں علم ہو جائے كہ يہ سنت ہے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 401 ).

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

نماز جنازہ ميں سورۃ فاتحہ پڑھنے كا كيا حكم ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" واجب ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "

اور نبى رحمت صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے فاتحہ الكتاب نہ پڑھى اس كى كوئى نماز نہيں "

متفق عليہ.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 13 / 143 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب