جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ملازم كو انعام دينے اور حرام اشياء والے ہوٹل ميں ملازمت كا حكم

سوال

ميں " شرم الشيخ " كے ايك ہوٹل ميں ملازم ہوں، اور ميرا كام ہوٹل ميں آنے والے مسافروں كے بيگ وغيرہ اٹھانا ہے، ميرى تنخواہ بھى مقرر ہے اور اس كے ساتھ سات بخشش اور نسبت كے حساب سے بھى مجھے رقم حاصل ہوتى ہے، ميں شراب نوشى وغيرہ كے متعلقہ كام تو نہيں كرتا ميرا ہوٹل كے آفس كے ساتھ صرف بيگ وغيرہ اٹھانے كا معاہدہ ہے، ميرى آپ سے گزارش ہے كہ آپ مجھے اس كے متعلق معلومات فراہم كريں، كيونكہ ميں اپنے معاملہ ميں پريشان ہوں؛ اس ليے كہ ميں يہ كام چھوڑنا چاہتا ہوں اپنى تنخواہ اور بخشش اور نسبت سے حاصل كردہ مال كے ساتھ ميں كوئى اپنا كاروبار شروع كرنا چاہتا ہوں، اور ميرا ارادہ ہے كہ مال حلال ہو تا كہ اللہ تعالى اس ميں بركت عطا فرمائے.
يہ علم ميں رہے كہ ہوٹل ميں آنے والے بعض اجنبى لوگ اپنے بيگ ميں شراب بھى لاتے ہيں، بعض اوقات ہميں اس كا علم ہوتا ہے، اور بعض اوقات علم نہيں ہوتا.
اور بہت سے سياح حضرات كو ہوٹل كى آزادى پسند نہيں آتى جس كى بنا پر وہ ہوٹل چھوڑ كر چلے جاتے ہيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ مباركباد كے مستحق ہيں كہ آپ اپنے مال كو حلال بنانے كى رغبت ركھتے ہيں، اور اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اپنے حلال كے ساتھ اپنے حرام سے غنى كردے، اور اپنے فضل كے ساتھ اپنے علاوہ ہر ايك سے غنى كر دے.

رہا آپ كى تنخواہ اور ہوٹل كے مالك اور آپ كے مابين اتفاق كردہ تناسب كا مسئلہ تو اگر تو اصل ميں وہ كام جس كى آپ اجرت لے رہے ہيں وہ شرعا مباح اور جائز ہے تو پھر اس ميں كوئى اشكال نہيں ہے، اور اصل ميں بيگ اٹھانا ايك مباح اور جائز كام ہے، ليكن جس بيگ كے متعلق آپ كو علم ہو كہ اس ميں شراب ہے اس بيگ كو اٹھانا حرام ہے، بلكہ يہ كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتا ہے.

ابو داود رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى نے شراب اور شراب نوشى كرنے والے، اور شراب پلانے اور شراب فروخت كرنے اور شراب خريدنے والے، اور شراب كشيد كرنے والے، اور شراب كشيد كروانے والے، اور شراب اٹھانے والے، اور جس كى طرف شراب اٹھا كر لے جائى لعنت فرمائى ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3674 ).

رہا مسئلہ بخشش كا تو يہ تين حالتوں سے خالى نہيں:

1 - يا تو آپ اور ہوٹل كے مالك كے مابين اتفاق ہوا ہو كہ بخشش آپ كى ہے، تو اس حالت ميں آپ كے ليے اس ميں كوئى حرج نہيں.

2 - اس طرح كے كام ميں لوگوں كو علم ہو كہ مزدور كو كچھ نہ كچھ بطور بخشش ديا جاتا ہے، تو مالك كے علم ميں ہو اور وہ اس پر راضى ہو تو آپ كے ليے يہ بخشش لينے ميں كوئى حرج نہيں.

3 - آپ كے مابين بخشش لينے ميں كوئى اتفاق نہ ہوا ہو، اور نہ ہى لوگ آپ كے جيسے پيشہ ميں بخشش دينے سے متعارف ہوں، اور نہ ہى آپ كو مالك كے رد فعل كا علم ہو كہ اگر اسے علم ہو جائے كہ آپ بخشش ليتے ہيں، يا پھر آپ كو اس كے رد عمل كا علم ہو كہ وہ آپ كے ليے صحيح نہيں، اور نہ ہى وہ آپ كے ايسا كرنے سے راضى ہوتا ہے، تو اس صورت ميں يہ بخشش وہ ہے جسے اہل علم " ملازمين كے تحائف " كا نام ديتے ہيں، اور يہ حرام ہے آپ كے ليے لينا حلال نہيں؛ كيونكہ حديث ميں اس كى ممانعت آئى ہے.

امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو حميد ساعدى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كي ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنو اسد كے ايك شخص جس كا نام ابن اللتبيۃ تھا كو زكاۃ اكٹھى كرنے كے ليے بھيجا، جب وہ زكاۃ اكٹھى كر كے لايا تو كہنے لگا: يہ تمہارا ہے، اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تشريف لائے اور اللہ تعالى كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد فرمايا:

" اس اہلكار كى حالت كيا ہے جسے ہم كسى كام كے ليے روانہ كرتے ہيں تو وہ آكر كہتا ہے: يہ آپ كا ہے، اور يہ ميرا، تو وہ اپنے ماں باپ كے گھر ہى كيوں نہ بيٹھا رہا اور انتظار كرے كہ آيا اسے ہديہ ديا جاتا ہے يا نہيں ؟

اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے وہ جو كچھ بھى لائے گا روز قيامت اسے اپنى گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا، اگر وہ اونٹ ہے تو آواز نكال رہا ہوگا، يا گائے ہو گى تو وہ بھائيں بھائيں كر رہى ہو گى، يا پھر بكرى ہو گى تو وہ مميا رہى ہوگى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2457 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1832 ).

رہا يہ معاملہ كہ آپ يہ كام اور ملازمت جارى ركھيں يا چھوڑ ديں ؟

تو ايسے ہوٹل ميں ملازمت كرنا جہاں اجنبى سياح آتے ہوں فى ذاتہ حرام تو نہيں، ليكن جب وہ كسى حرام كام ميں داخل ہو تو پھر وہ حرام ہو جائيگى، اور اس طرح كے ہوٹل شراب نوشى اور مرد و عورت كے حرام اختلاط، غنا و موسيقى، اور سوئمنگ پول .... وغيرہ سے خالى نہيں ہوتے اور آپ نے اس كى طرف آزادى كے الفاظ بول كر اشارہ بھى كيا ہے جو كہ ہوٹل ميں موجود ہے، يہ چيز اس ہوٹل اور اس طرح كے دوسرے ہوٹلوں ميں ملازمت كرنے كو حرام كر ديتا ہے، اور آپ نے يہ بھى بيان كيا ہے كہ آپ گاہكوں كے بيگ اور بريف كيس وغيرہ اٹھاتے ہيں، جس ميں شراب بھى ہو سكتى ہے، جو كہ آپ كى اس ہوٹل ميں ملازمت حرام ہونے كو اور بھى قوى كر ديتا ہے.

اس بنا پر آپ كے ليے ضرورى اور واجب ہے كہ آپ جتنى جلدى ہو سكے اس كام كو ترك كر كے كوئى ايسا كام تلاش كريں جس سے آپ كے دل كو راحت ملے، اور آپ مطمئن ہو كر روزى حاصل كريں، اور آپ كو اللہ سبحانہ وتعالى كے اس فرمان پر يقين ہونا چاہيے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا الطلاق ( 2 - 3 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ تو جو چيز بھى اللہ كے ليے چھوڑے گا تو اللہ تعالى اس كے بدلے تجھے اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز مہيا فرمائيگا "

اسے امام احمد نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے " حجاب المراۃ المسلمۃ " صفحہ ( 47 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور سوال نمبر ( 46704 ) كے جواب ميں ايسا ہوٹل جہاں حرام كام ہوتے ہوں ملازمت كى حرمت كے متعلق بعض اہل علم كے فتاوى جات بيان ہو چكے ہيں، اور اسى طرح ايسے فليٹ اور كمروں ميں جہاں حرام كام ہوتے ہوں وہاں ملازمت كرنے كى حرمت بھى بيان ہوئى ہے اس ليے آپ اس جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور سوال نمبر ( 82356 ) كے جواب ميں ہم نے اس طرح كى جگہ كا حكم بيان كيا ہے جہاں آپ كام كر رہے ہيں، اس كا بھى مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب