سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

پہلى شادى كى خبر ديے بغير دوسرا عقد نكاح كرنا

75405

تاریخ اشاعت : 31-07-2010

مشاہدات : 6018

سوال

كيا اگر كوئى شخص كچھ اہم معلومات چھپا كر ركھے اور واضح نہ كرے وہ يہ كہ اگر عورت كو يہ معلومات پہنچ گئيں تو وہ اس سے شادى نہيں كريگى كيونكہ اس كى پہلى بيوى بھى موجود ہے، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقھاء رحمہم اللہ نے بعض وہ امور ذكر كيے ہيں جن كى بنا پر خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كو فسخ نكاح كرنے كا حق حاصل ہو جاتا ہے، اس ميں انہوں نے يہ بھى ذكر كيا ہے:

عيب كى وجہ سے فسخ نكاح كرنا، يعنى دوسرے معنوں ميں يہ كہ اگر خاوند يا بيوى ميں سے كسى ميں بھى كوئى عيب پايا جائے تو دوسرے كى جانب سے فسخ نكاح كرنا جائز ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" مذاہب اربعہ كے فقھاء اس پر متفق ہيں كہ عيب كى بنا پر خاوند اور بيوى ميں عليحدگى جائز ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 68 ).

خاوند اور بيوى ميں پايا جانے والا ہر عيب فسخ نكاح كا باعث نہيں ہے، بلكہ اس عيب كے ليے ايك ضابطہ اور قاعدہ ہے كہ:

جس عيب سے نكاح كا مقصد يعنى محبت و مودت اور استمتاع اور سكون اور اولاد جيسا فائدہ فوت ہو جائے "

ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہر اس عيب كى بنا پر عورت كو رد كر ديا جائيگا جو كمال استمتاع يعنى مكمل فائدہ كے حصول ميں نفرت كا باعث ہو " انتہى

ديكھيں: الاختيارات ( 222 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قياس يہ ہے كہ: ہر وہ عيب جس سے خاوند اور بيوى ميں نفرت پيدا ہو اور اس سے نكاح كے مقاصد محبت و مودت اور رحمدلى حاصل نہ ہوتى ہو تو يہ اختيار واجب كرتا ہے " انتہى

اور ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صحيح يہى ہے كہ يہ ايك محدود ضابطہ كے ساتھ مربوط ہے، اور وہ يہ كہ جسے لوگ عيب شمار كرتے ہوں اور اس سے كمال استمتاع فوت ہوتا ہو، يعنى جس سے مطلق عقد نكاح عدم كا مقتضى ہو تو يہ عيب شمار ہوگا.

چنانچہ نكاح ميں عيب بھى خريدو فروخت ميں عيوب كى طرح برابر ہيں، اس لے كہ ہر ايك ميں نقص كى صفت ہے جو مطلق عقد كے مخالف ہے " انتہى

دوم:

كسى شخص كا دوسرى شادى كرنا ايسا عيب نہيں جس كى بنا پر نكاح فسخ كيا جائے، كيونكہ مرد كو دوسرى اور تيسرى اور چھوتھى شادى كرنے كا حق حاصل ہے، اور اگر وہ بيويوں ميں عدل و انصاف كرتا ہے تو بيوى كو فسخ نكاح كا حق حاصل نہيں ہوگا.

شيخ ابن جبرين سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا شادى صحيح ہونے كے ليے مرد كے ليے دوسرى بيوى كو پہلى شادى كا بتانا ضرورى ہے چاہے اس كے متعلق اس سے دريافت نہ بھى كيا گيا ہو، اور كيا اگر اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو اس كے انكار كرنے پر كوئى چيز مرتب ہو گى ؟

شيخ كا جواب تھا:

" آدمى كے ليے بيوى اور اس كے خاندان والوں كو اپنے شادى شدہ ہونے كے متعلق بتانا لازم نہيں چاہے اس كے متعلق اس سے دريافت بھى كيا گيا ہو، ليكن غالب طور پر يہ چيز مخفى نہيں رہتى، كيونكہ شادى تو اس وقت تك ہوتى ہى نہيں جب تك خاوند اور بيوى كے متعلق باز پرس نہ كر لى جائے، اور ان كى صلاحيت كے متعلق تحقيق نہ ہو جائے.

ليكن واقع ميں سے كچھ چھپانا جائز نہيں، چنانچہ اگر خاوند يا بيوى كى جانب سے كوئى جھوٹ بيان ہوا اور اس پر فريق ثانى نے بنا كرتے ہوئے عقد كر ليا تو اختيار ثابت ہو جائيگا:

اگر اس نے يہ بيان كيا كہ وہ غير شادى شدہ ہے اور اس ميں جھوٹ بولا تو بيوى كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے، اور اگر عورت كے متعلق انہوں نے كہا كہ وہ كنوارى ہے حالانكہ وہ كنوارى نہ تھى تو خاوند كو اختيار حاصل ہو جائيگا كہ وہ اس سے شادى كرے يا اسے چھوڑ دے " انتہى

ديكھيں: فوائد و فتاوى تھم المراۃ المسلمۃ ( 114 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب