سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اپنے ذمہ اخراجات واجب والے شخص كو زكاۃ دينا جائز نہيں

سوال

ميں عورت ہوں اور اپنے ملك كے علاوہ كسى اور ملك ميں رہتى ہوں ميرے سات بچے ہيں، ميں ہر برس مغرب ميں رہائش پذير اپنى والدہ كو فطرانہ ارسال كرتى ہوں، علم ميں رہے كہ ان كا خرچ ميں ہى برداشت كرتى ہوں، كيا اس كے ليے زكاۃ جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء كرام كا اتفاق ہے كہ فرضى زكاۃ ـ جس ميں فطرانہ بھى شامل ہے ـ كسى ايسے شخص كو دينى جائز نہيں جس كا خرچ بھى صاحب زكاۃ كے ذمہ ہو جيسا كہ والدين اور اولاد ہے.

المدونۃ ميں درج ہے:

" مجھے ميرے مال كى زكاۃ كے متعلق بتائيں كہ ميں امام مالك كے قول كے مطابق كسے دے سكتا ہوں اور كسے نہيں ؟

ان كا جواب تھا:

امام مالك رحمہ اللہ كا قول ہے: آپ اپنے ان رشتہ داروں كو زكاۃ مت ديں جن كا خرچ آپ كے ذمہ ہے " انتہى

ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 344 ).

اور كتاب الام ميں امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور ( اپنے مال كى زكاۃ ) والد والدہ اور دادا دادى نانا نانى كو مت دے " انتہى

ديكھيں: الام للشافعى ( 2 / 87 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور فرضى زكاۃ ميں سے والدين اور والدين كے والدين يعنى دادا نانا اور دادى نانى چاہے جتنے بھى اوپر كى نسل ميں ہوں مت دے، اور نہ ہى اولاد اور پوتوں اور نواسوں كو "

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 509 ).

اور ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم اس پر متفق ہيں كہ والدين كو اس حالت ميں زكاۃ دينى جائز نہيں جب والدين خرچ كے محتاج ہوں اور اولاد پر ان كا خرچ لازم ہو؛ كيونكہ انہيں زكاۃ دينے كى صورت ميں وہ اخراجات سے مستغنى ہو جائينگے اور يہ زكاۃ دينے والے سے ساقط ہو جائيگا، اور اس زكاۃ كا فائدہ زكاۃ دينے والے كو ہو گا، چنانچہ يہ تو ايسے ہى ہوا كہ اس نے زكاۃ اپنے آپ كو ہى دى اس ليے يہ جائز نہيں؛ بالكل اسى طرح كہ وہ اس زكاۃ سے اپنا قرض اتار دے " انتہى.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

اقرباء و رشتہ داروں كو فطرانہ دينے كے بارہ ميں كيا حكم ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" رشتہ دار و اقرباء كو فطرانہ اور زكاۃ دينى جائز ہے؛ بلكہ كسى اور كو دينے كى بجائے رشتہ داروں كو دينا زيادہ بہتر ہے؛ كيونكہ رشتہ داروں كو دينا صدقہ بھى ہے اور صلہ رحمى بھى.

ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اس كى ادائيگى ميں اپنے مال كا بچاؤ اور حمايت نہ ہو، يہ اس ميں كہ جب يہ فقير جسے وہ زكاۃ دے رہا ہے اس كا نفقہ اور خرچ زكاۃ دينے والے پر واجب ہوتا ہو، تو اس حالت ميں اس كى كسى ضرورت كو پوار كرنے كے ليے زكاۃ دينا جائز نہيں.

كيونكہ اگر وہ ايسا كرتا ہے تو اس نے زكاۃ ادا كر كے اپنا اصل مال بچايا ہے جو اس كى ضرورت پورا كرنے كے ليے خرچ ہونا تھا، اور يہ جائز اور حلال نہيں.

ليكن اگر اس كا خرچ زكاۃ دينے والے پر واجب نہيں تو وہ اسے زكاۃ دے سكتا ہے، بلكہ اسے زكاۃ ادا كرنا كسى دور والے شخص كو زكاۃ دينے سے افضل و بہتر ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" آپ كا اپنے قريبى شخص كو صدقہ دينا صدقہ بھى ہے اور صلہ رحمى بھى " انتہى

اس بنا پر آپ ـ اے سوال كرنے والى ـ كے ليے اپنى والدہ كو زكاۃ دينى جائز نہيں، بلكہ آپ زكاۃ كے علاوہ مال سے اپنى والدہ پر خرچ كريں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى روزى ميں بركت عطا فرمائے اور كشادہ كرے اور بہتر و اچھى روزى عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب