جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

عذر كى بنا پر رمضان كے روزے چھوڑنے والے كا فطرانہ

سوال

كيا عذر مثلا سفر يا بيمارى كى بنا پر مكمل رمضان المبارك كے روزے نہ ركھنے والے پر بھى فطرانہ ادا كرنا فرض ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آئمہ اربعہ وغيرہ ميں سے جمہور اہل علم كا يہ كہنا ہے كہ فطرانہ كى ادائيگى ہر مسلمان شخص پر فرض ہے، چاہے وہ روزے نہ بھى ركھے، اس ميں سعيد بن مسيب اور حسن بصرى رحمہما اللہ كے علاوہ كسى اور نے مخالفت نہيں كى، ان دونوں كا كہنا ہے كہ:

" فطرانہ صرف روزہ ركھنے والے پر ہى فرض ہے، ليكن درج ذيل دلائل كى بنا پر جمہور اہل علم كا قول ہى صحيح ہے:

1 - فطرانہ كى فرضيت كى اصل حديث كا عموم.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ ميں ايك صاع جو، يا ايك صاع كھجور ہر غلام اور آزاد، مرد و عورت چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض كيا، اور حكم ديا كہ لوگوں كے نماز عيد كے ليے جانے سے قبل فطرانہ ادا كيا جائے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1503 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 984 ).

تو اس حديث ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا قول: " ہر چھوٹے " اس ميں وہ بھى شامل ہے جو روزہ نہ ركھ سكتا ہو.

2 - صدقات اور زكاۃ كى مشروعيت ميں غالبا مسكين اور فقير كى مصلحت اور معاشرے كا عمومى ايك دوسرے كے ساتھ تعاون مد نظر ركھا گيا ہے، اور يہ سب سے زيادہ فطرانہ ميں ظاہر ہوتا ہے، كہ ہر چھوٹے اور بڑے غلام اور آزاد مرد و عورت پر فطرانہ فرض كيا گيا ہے، اور شارع نے اس كى فرضيت ميں نہ تو نصاب كى شرط ركھى ہے، اور نہ ہى سال كى، اسى ليے يہ اس پر بھى فرض ہوتا ہے جو كسى عذر يا بغير عذر كے روزے نہ ركھ سكا ہو، وہ بھى اس فطرانہ كى فرضيت كے مقصد كے ضمن ميں آتا ہے.

3 - اور جس نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے روزہ دار كے ليے لغو و بےہودگى سے پاكى اور مساكين كے ليے بطور كھانا فطرانہ فرض كيا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 ).

استدلال ميں ان كا كہنا ہے: " روزہ دار كے ليے پاكى " يہ اس بات كى دليل ہے كہ فطرانہ صرف روزے دار پر فرض ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں ا سكا جواب ديتے ہوئے كہا ہے:

" يہاں تطہير اور پاكى كو غالب طور پر ذكر كيا گيا ہے، جس طرح كہ فطرانہ اس پر فرض ہے جو گناہ نہيں كرتا، مثلا متحقق صلاح، اور يا وہ شخص جو غروب شمس سے كچھ دير قبل اسلام لايا ہو " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 369 ).

ابن حجر رحمہ اللہ كى كلام كا معنى يہ ہے كہ: غالب طور پر فطرانہ اس ليے مشروع كيا گيا ہے يہ روزہ دار كو پاك كرتا ہے، ليكن يہ پاكى اس كے فرض ہونے كى شرط نہيں، اس كى مثال زكاۃ كا مال ہے، كيونكہ يہ بھى مال كو پاك صاف كرنے كے ليے فرض كى گئى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

آپ ان كے مالوں سے صدقہ ( زكاۃ ) لے ليجئے جس كے ذريعہ سے آپ ان كو پاك صاف كرديں، اور ان كے ليے دعا كيجئے، بلا شبہ آپ كى دعا ان كے ليے موجب اطمنان ہے، اور اللہ تعالى خوب سنتا اور خوب جانتا ہے التوبۃ ( 103 ).

اور اسكے باوجود زكاۃ چھوٹے بچے كے مال ميں بھى فرض ہوتى ہے، حالانكہ وہ تطہير كا محتاج نہيں، كيونكہ اس كى كوئى برائى نہيں لكھى جاتى.

ليكن شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ نے ا سكا ايك اور جواب ديتے ہوئے كہا ہے:

" بچوں اور غير مكلف افراد، اور سفر يا بيمارى كے عذر كى بنا پر روزے نہ ركھنے والوں كا فطرانہ ادا كرنا حديث كے تحت آتا ہے، اور غير مكلفين كے اولياء كے ليے پاكيزگى كا باعث ہوگا، اور عذر كى بنا پر روزے نہ ركھنے والوں كے ليے بھى پاكيزگى كا باعث ہے، كيونكہ وہ عذ زائل ہونے كے بعد روزے ركھينگے، تو اس طرح روزے ركھنے يا روزوں كى تكميل سے قبل ہى پاكيزگى حاصل ہوگى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى الزكاۃ ( فطرانہ ) ( 2 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب