اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نفاس سمجھ كر روزہ اور نماز ترك كر دى

سوال

حمل ساقط ہونے كوچاليس يوم پورے ہو گئے اور حمل ساقط ہونے كو تقريبا اڑھائى ماہ ہوئے تو رمضان آ گيا ميں نے شرعى امور كا علم نہ ہونے كى بنا پر نماز روزہ چھوڑ ديا، بعد ميں علم ہوا كہ يہ نفاس نہيں ہے.
كيا ميں نے جو نماز اور روزے چھوڑے ہيں ان كى قضاء كروں گى ؟
ميں پريشان ہوں اور معلوم نہيں پڑ رہا كہ كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حمل ساقط ہونےكى صورت ميں آنے والا خون اسى صورت ميں نفاس شمار ہوگا جب بچہ انسانى شكل ميں ڈھل چكا ہو يعنى اس كا سر يا ہاتھ يا پاؤں وغيرہ واضح ہوچكا ہو.

اور انسان كے اعضاء ( 80 ) يوم سے قبل بننا شروع نہيں ہوتے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے ايك كو چاليس يوم تك جمع كيا جاتا ہے، اور پھر اتنے ہى ايام ميں جما ہوا گاڑھا خون، اور پھر اتنے ہى ايام ميں گوشت كا لوتھڑا بنتا ہے، پھر اللہ سبحانہ و تعالى ايك فرشتہ بھيجتا ہے اور اسے چار چيزوں كا حكم دے كر كہا جاتا ہے كہ:

اس كا عمل اور اس كى روزى اور اس كى عمر اور بدبخت يا سعادت مند ہونا لكھو، پھر اس ميں روح پھونكى جاتى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3208 ).

اس حديث سے علم ہوا كہ انسان حمل ميں كئى ايك مراحل سے گزرتا ہے:

چاليس يوم تك نطفہ رہتا ہے، پھر چاليس يوم ميں جما ہوا خون بنتا اور پھر تيسرے چاليس ايام ( يعنى 120 يوم ) ميں گوشت كا لوتھڑا بن جاتا ہے،اس كے بعد پھراس ميں روح پھونكى جاتى ہے، يعنى ايك سو بيس يوم مكمل ہونے پر روح ڈالى جاتا ہے.

انسانى شكل مضغۃ يعنى گوشت كا لوتھڑا بننے كےمرحلہ ميں مكمل ہوتى ہے، اس سے قبل نہيں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اگر تمہيں مرنےكےبعد دوبارہ زندہ ہونےميں كوئى شك ہے توسوچو ہم نے تمہيں مٹى سے پيدا كيا پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر گوشت كے لوتھڑے سے جو صورت ديا گيا تھا اور بے نقشہ تھا، تا كہ ہم تم پر ظاہر كر ديں الحج ( 5 ).

اس آيت سے معلوم ہوا كہ گوشت كا لوتھڑا بعض اوقات انسانى شكل ميں ڈھل چكا ہوتا ہے، اور بعض اوقات انسانى شكل نہيں بنى ہوتى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب انسانى شكل واضح ہونے كے بعد حمل ساقط ہو تو آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، امام احمد نے يہى بيان كيا ہے، اور اگر نطفہ يا جما ہوا خون ساقط ہو تو اسميں آنےوالا خون نفاس شمار نہيں ہوگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 1 / 211 ).

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب عورت كا ايسا حمل ساقط ہو جس ميں انسان كى شكل واضح ہو چكى ہو يعنى سر يا پاؤں يا ہاتھ وغيرہ واضح ہو چكا ہو تو يہ عورت نفاس والى شمار ہوگى، اور اسے نفاس كے احكام حاصل ہونگے.

چنانچہ نہ تو يہ عورت جب تك پاك نہ ہو جائے يا پھر چاليس ايام پورے نہ كر لے نہ تو نماز ادا كريگى اور نہ ہى روزہ ركھے اور نہ ہى اپنے خاوند كے جماع كے ليے حلال ہوگى....

ليكن اگر عورت كا ساقط ہونے والا حمل ايسا ہو جس ميں انسان كى شكل واضح نہيں ہوئى بلكہ وہ صرف گوشت كا ٹكڑا ہو اور شكل وغيرہ نہ ہو يا پھر جما ہوا خون ہو تو استحاضہ والى عورت شمار ہوگى اور اسے استحاضہ كے احكام حاصل ہونگے نفاس كے نہيں، اور نہ ہى حائضہ عورت كے حكم ميں ہوگى.

يہ عورت نماز بھى ادا كريگى اور روزہ بھى ركھےگى، اور اپنے خاوند كے ليے بھى حلال ہوگى ...

كيونكہ وہ اہل علم كے ہاں استحاضہ والى عورت كے حكم ميں ہے" انتہى

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 243 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم كا كہنا ہے: اگر خارج ہونے والى چيز ميں انسانى شكل واضح ہو تو اس كے بعد خارج ہونے والا خون نفاس كا خون شمار ہوگا، يہ عورت اس حالت ميں نماز بھى چھوڑے گى اور روزہ بھى نہيں ركھےگى، اور پاك ہونے تك اپنے خاوند سے بھى اجتناب كريگى.

ليكن اگر خارج ہونے والى چيز غير مخلق ہو يعنى اس ميں انسانى شكل واضح نہ ہوئى ہو تو اس كے بعد آنے والا خون نفاس شمار نہيں ہوگا، نہ تو يہ نماز كے ليے مانع ہے اور نہ ہى روزہ ركھنے ميں مانع بنےگا، اور اس كے علاوہ بھى كسى چيز ميں مانع نہيں.

اہل علم كا كہنا ہے: كم از كم عرصہ جس ميں انسانى شكل واضح ہو جاتى ہے وہ اسى ( 80 ) يوم ہيں "

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 304 - 305 ).

اس بنا پر آپ كو آنے والا خون نفاس كا خون نہيں ہے؛ كيونكہ حمل اسى دن پورے كرنے سے قبل ہى ساقط ہوگيا ہے، اور آپ كو نماز بھى ادا كرنا چاہيے تھى اور روزے بھى ركھنے تھے الا يہ كہ حيض آ جاتا.

دوم:

آپ پر روزں كى قضاء كرنا واجب ہے، اس ميں كوئى اشكال نہيں چاہے يہ كہا جائے كہ آپ پاك تھيں يا پھر نفاس كى حالت ميں، كيونكہ بيمارى يا سفر يا حيض كے عذر كى بنا پر روزہ نہ ركھنے والا بعد ميں ان روزوں كى قضاء كريگا، اور آپ نے عذر كى بنا پر روزہ ترك كيا تھا، وہ يہ كہ آپ كا خيال تھا كہ آپ اس وقت نفاس كى حالت ميں ہيں.

رہا نمازوں كى قضاء كا مسئلہ تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ آپ پر نمازوں كى قضاء واجب نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كو جو استحاضہ كى حالت ميں نماز چھوڑتى رہى تھى نمازوں كى قضاء كا حكم نہيں ديا، بلكہ اسے يہ بتايا كہ مستقبل ميں اسے كيا كرنا ہے اسكى راہنمائى فرمائى تھى.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر استحاضہ والى عورت يہ اعتقاد ركھتے ہوئے نماز ترك كرتى ہے كہ اس پر نماز فرض نہيں، تو اس پر نمازوں كى قضاء واجب ہونے ميں دو قول ہيں:

پہلا قول:

وہ نمازوں كا اعادہ نہيں كريگى، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ وغيرہ سے منقول ہے؛ كيونكہ جس استحاضہ والى عورت نے رسول كريم صلى اللہ عليہ سے عرض كيا تھا كہ:

" مجھے بہت شديد قسم كا حيض آتا ہے جس نے مجھے نماز اور روزے سے رو كركھا ہے "

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس چيز كا حكم ديا جو اس پر مستقبل ميں واجب ہوتا تھا، اور اسے پچھلى نمازوں كى قضاء كرنے كا حكم نہيں ديا تھا " انتہى

مجموع الفتاوى ( 22 / 102 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 45648 ) كے جواب كا ضرور مطالعہ كريں.

حاصل يہ ہوا كہ: آپ كو روزں كى قضاء ميں روزے ركھنا ہونگے، ليكن اگر نمازوں كى قضاء آپ كے ليے آسان ہو تو آپ ايسا كر ليں، وگرنہ ہميں اميد ہے كہ اللہ تعالى آپ كو معاف فرمائيگا.

ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ طلب علم اور دين كو سمجھنے كى حرص ركھيں اور كوشش كريں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ ہميں اور آپ كو توفيق نصيب فرمائے، اور سيدھى راہ دكھائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب