الحمد للہ.
اول:
بھائى يا كسى اور كو حج ميں تعاون كے ليے پيسا خرچ كرنا ايك عظيم نيك عمل ہے؛ كيونكہ يہ عظيم اطاعت اور نيك عمل كى ادائيگى ميں اس كى معاونت ہے، جس كے نتيجہ ميں درجات كى بلندى اور گناہ معاف ہوتے ہيں.
ليكن يہ تعاون آپ كے كسى حرام كام كے ارتكاب كے ليے سبب نہيں ہونا چاہيے، مثلا يہ كہ اس كے ليے آپ بنك سے سود پر قرض حاصل كريں، كيونكہ سود كا گناہ بہت ہى زيادہ عظيم ہے، اور اس سلسلے ميں ايسى وعيد آئى ہے جو كسى اور گناہ اور معصيت كے متعلق وارد نہيں.
اس كى مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 6847 ) اور ( 9054 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
آپ پر واجب ہے كہ سودى لين دين كرنے سے اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كريں.
اور آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ سودى بنك ميں رقم ركھنى جائز نہيں، ليكن صرف اس وقت ركھى جا سكتى ہے جب مال ضائع ہونے كا خوف ہو، اور كوئى اسلامى بنك نہ پايا جائے، تو پھر اس وقت بنك ميں سود كے بغير پيسے ركھنے جائز ہيں؛ كيونكہ قواعد شريعہ ميں يہ اصول اور قاعدہ بھى ہے كہ:
" ضروريات محظور اور ممنوع اشياء كو مباح كر ديتى ہيں "
اور ضرورت كا بھى اندازہ اس كى حاجت كے اعتبار سے ہوگا.
دوم:
ان شاء اللہ آپ كے بھائى كا حج صحيح ہے، كيونكہ اس نے يہ مال آپ سے مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كيا ہے، يا تو وہ صدقہ ہے، يا پھر ہبہ اور يا قرض حسنہ ہے.
بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: جو مال انسان نے حرام طريقہ ـ مثلا سود ـ كے ذريعہ كمايا ہو وہ صرف كمانے والے پر حرام ہے، اور جس نے حرام كمائى كرنے والے سے يہ مال مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كيا مثلا خريد و فروخت يا ہديہ وغيرہ كے ذريعہ تو اس كے ليے وہ مال حرام نہيں.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 45018 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كر ليں.
چنانچہ اس كى حرمت آپ كى طرف متوجہ ہوگى كيونكہ آپ نے سود پر قرض ليا، نہ كہ آپ كے بھائى كى طرف.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنے محبوب اور رضا مندى والے اعمل كرنے كى تو فيق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .