سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

خاوند طلاق كى بہت قسم اٹھاتا ہے كيا اب بھى وہ اس كى بيوى ہے ؟

82780

تاریخ اشاعت : 25-09-2020

مشاہدات : 6219

سوال

ميرا خاوند ہميشہ مجھ پر طلاق كى قسم اٹھاتے ہوئے كہتا ہے: ( اگر ميں نے ايسے كيا تو مجھ پر طلاق ) اور قسم والا عمل نہيں كرتا، كئى بار مجھے خاوند نے كہا كہ يہ غصہ كى قسم ہے پھر كچھ دن كے بعد وہ دوبارہ مجھ پر طلاق كى قسم اٹھاتا ہے.
اول:
كيا ميں اب بھى اس كى عقد نكاح ميں ہوں ؟
دوم:
كيا ميرے خاوند پر كفارہ لازم آتا ہے ؟
سوم:
اس طرح كى حالت كا علاج كرنے كے ليے شرعى طريقہ كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ اپنے خاوند كے نكاح ميں ہيں يا نہيں اس دارومدار تو طلاق واقع ہونے يا نہ ہونے پر منحصر ہے، اور يہ معلوم ہے كہ جب عورت كو تين طلاق ہو جائيں تو وہ اپنے خاوند سے بائن ہو جاتى ہے، اور اس كے ليے حلال نہيں ہوتى جب تك وہ كسى اور شخص سے نكاح نہ كر لے.

آپ نے جو بيان كيا ہے كہ آپ كا خاوند كثرت سے " اگر ميں نے ايسے كيا تو مجھ پر طلاق " كے الفاظ كہتا ہے، اور پھر كرتا نہيں، اس ميں اہل علم كا اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور علماء كہتے ہيں كہ قسم ٹوٹنے كى حالت ميں طلاق واقع ہو جائيگى.

ديكھيں: المغنى ( 7 / 372 ).

اور بعض اہل علم جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں وہ كہتے ہيں كہ اگر طلاق قسم كى جگہ استعمال ہوئى ہو اور ايسا كرنے والے شخص نے اگر اس سے كسى چيز كى ترغيب دلانا چاہى ہو يا كسى چيز سے روكنا چاہا ہو تو قسم ٹوٹنے كى صورت ميں قسم كا كفاہ لازم آئيگا، اور طلاق واقع نہيں ہوگى.

شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہم اللہ كا فتوى بھى يہى ہے، اس قول كى بنا پر خاوند كى نيت كو ديكھا جائيگا اگر تو اس نے شرط پورى ہونے كى حالت ميں طلاق واقع كرنے كى نيت كى تھى تو طلاق واقع ہو جائيگى.

اور اگر وہ اپنے آپ كو يا كسى دوسرے كو كسى كام سے روكنا چاہتا تھا يا پھر كسى كام كى ترغيب دلانا چاہ رہا تھا يا پھر كسى دوسرے كو كوئى كام كرنے كا كہنا چاہتاتھا اور پھر وہ قسم ٹوٹ گئى تو يہ قسم ہے اس پر قسم كا كفارہ ادا كيا جائيگا اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 39941 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

قسم كا كفارہ يہ ہے كہ ايك غلام آزاد كيا جائے، يا پھر دس مسكينوں كو كھانا ديا جائے، يا دس مسكينوں كو لباس مہيا كيا جائے، اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو پھر تين روزے ركھے جائيں.

دوم:

غصہ كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع بھى ہوتى ہے اور واقع نہيں بھى ہوتى يہ غصہ كى حالت اور شدت پر منحصر ہے اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22034 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

سوم:

اس طرح كى صورت حال كا علاج كرنے كے ليے شرعى طريقہ يہ ہے كہ خاوند كو طلاق كے خطرناك الفاظ كا ادراك ہونا چاہيے، كہ طلاق كے الفاظ بولنے كے بنا پر ہو سكتا ہے اس كے خاندان كا شيرازہ ہى بكھر جائے، اور اس كے ليے اب يہى كافى ہے كہ اپنى بيوى كے ساتھ اس وقت جو زندگى بسر كر رہا ہے اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.

جمہور علماء كرام تو كہتے ہيں كہ اس نے اپنى بيوى كو تين طلاقيں دے دى ہيں، خاص كر جب وہ يہ الفاظ كثرت سے استعمال كرتا رہا ہے تو ہو سكتا ہے اس نے دسيوں بار طلاق دے دى ہو، تو كيا كوئى مسلمان شخص اس پر راضى ہو سكتا ہے كہ اس كا اپنى بيوى كے ساتھ رہنے ميں اہل علم كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہو، اور ان ميں سے اكثر تو يہ كہتے ہيں كہ اس كا اپنى بيوى كے ساتھ رہنا حلال نہيں!! انا للہ و انا اليہ راجعون.

اس ليے آپ كو چاہيے كہ اللہ كا تقوى و ڈر اختيار كريں اور اپنے زبان سے نكلنے والے كلمہ كى خطرناكى كا ادراك كريں اور اللہ كے علاوہ كسى اور كى قسم مت اٹھائيں، اور باقى سب قسميں چھوڑ ديں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو سلامتى و عافيت نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب