الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو ہدايت نصيب كى اور راہ راست پر آنے كى توفيق سے نوازا، اور اپنى اطاعت و فرمانبردارى كى طرف آپ كا ہاتھ تھاما، ہم اللہ تعالى سے اپنے اور آپ كے ليے موت تك ثابت قدمى كى دعا كرتے ہيں.
دوم:
آپ كا پہلا حج ہى فرضى حج كے ليے كافى ہے، اور دوبارہ حج كرنے كى كوئى ضرورت نہيں، چاہے آپ ميں كمى و كوتاہى اور بےپردگى پائى جاتى تھى ليكن اگر آپ بے نماز تھيں حتى كہ حج ميں بھى نماز ادا نہيں كى تو آپ كا وہ حج شمار نہيں ہوگا، كيونكہ تارك نماز كافر ہے، اور كفر كى موجودگى ميں حج صحيح نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:
اگر بے نماز شخص اور روزہ نہ ركھنے والا شخص حج كرے تو اسى حالت ميں ہى حج كرنے والے شخص كے حج كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" نماز ترك كرنا كفر اور دائرہ اسلام سے خارج كر ديتا ہے، اور ايسا كرنے والا ابدى جہنمى ہے، جيسا كہ قرآن و سنت كے دلائل اور سلف رحمہ اللہ كے اقوال اس پر دلالت كرتے ہيں.
اس بنا پر بے نماز شخص كے ليے مكہ ميں داخل ہونا حلال نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يقينا مشرك نجس اور ناپاك ہيں، اس ليے وہ اس سال كے بعد مسجد حرام كے قريب بھى نہ جائيں .
نماز ادا نہ كرنے كى حالت ميں ادا كردہ حج نہ تو قابل قبول ہے، اور نہ ہى كافى ہوگا، كيونكہ يہ كافر شخص كى طرف سے ادا ہوا ہے، اور كافر شخص كى عبادات قابل قبول نہيں؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ كى ان كے خرچ كردہ مال صرف اس ليے قبول نہيں كيے جاتے كہ انہوں نے اللہ اور اس كے رسول كے ساتھ كفر كيا، اور نماز كے ليے آتے بھى ہيں تو سستى اور كاہلى كے ساتھ، اور اللہ كى راہ ميں خرچ كرتے بھى ہيں تو دل نہ چاہتے ہوئے التوبۃ ( 54 ).
انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 45 ).
واللہ اعلم .