جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

لواطت كروانے والے كو قتل كرنے كى حكمت

84140

تاریخ اشاعت : 31-10-2007

مشاہدات : 7401

سوال

لواطت كرنے والے كى طرح لواطت كروانے والے شخص كو قتل كيوں كيا جاتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ترمذى، ابو داود اور ابن ماجہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم جسے قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1456 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4462 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2561 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور صحابہ كرام كا لوطى عمل كرنے والے كو قتل كرنے پر اجماع ہے، ليكن اسے قتل كرنے كے طريقہ ميں اختلاف كيا ہے.

ان ميں سے بعض صحابہ كرام تو اسے جلا كر قتل كرنے كے قائل ہيں مثلا ابو ہريرہ اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہما، اور ان ميں سے بعض كى رائے ہے كہ اسے اونچى جگہ سے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائيں مثلا ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى رائے يہى ہے.

اور بعض صحابہ كرام اسے پتھروں سے رجم كرنے كے قائل ہيں حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے، يہ بھى ابن عباس اور على رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 58 ).

اور رہا مسئلہ جس شخص كے ساتھ لواطت كا فعل كيا جائے اس كو سزا دينے كى حكمت يہ ہے كہ وہ بھى معصيت و گناہ ميں شريك ہے، كيونكہ يہ معصيت اس وقت تك نہيں ہو سكتى جب تك كہ اس ميں دو فريق شريك نہ ہوں، تو عدل يہى تھا كہ ان دونوں پر حد لاگو كى جاتى اور زنا كا ارتكاب بھى اس جيسا ہى ہے، كہ اس ميں بھى مرد اور عورت دونوں پر حد قائم كى جاتى ہے، پھر اس سے جو عظيم فساد ہوا ہے، اور اس كے وجود كى بنا پر جو جو بڑى خرابى پيدا ہوئى ہے اس بنا پر اس كے زندہ رہنے ميں كوئى خير نہيں.

مطالب اولى النھى ميں درج ہے كہ:

" اور اگرچہ زنا اور لواطت فحاشى ميں مشترك ہيں، اور ہر ايك ميں فساد و خرابى ہے جو اللہ تعالى كے خلق و امر كے منافى ہے، چنانچہ لواطت ميں تو وہ خرابياں اور فساد ہے جسے شمار نہيں كيا جاسكتا اور اس كا كوئى حصر نہيں، جس كے ساتھ يہ فعل كيا گيا ہے اس كے ساتھ يہ فعل كرنے سے اسے قتل كرنا بہتر ہے، اس ليے كہ اس نے ايسا فساد كيا ہے جس سے اصلاح كى كبھى كوئى اميد نہيں كى جا سكتى، اور اس كى سارى خير و بھلائى چلى گئى ہے، اور اس كے چہرے سے حياء كا پانى زمين نے چوس ليا ہے، تو اس كے بعد نہ تو وہ اللہ تعالى سے حياء كرتا ہے، اور نہ ہى اس كى مخلوق سے شرماتا ہے، اور اس كے دل اور روح ميں فاعل كا نطفہ وہى عمل كرتا ہے جو زہر كسى كے بدن ميں كرتا ہے.

اور وہ اس قابل ہو چكا ہے كہ اسے خير و بھلائى كى توفيق ہى نہ دى جائے، اور اس كے مابين پردہ حائل كر ديا جائے، اور جب بھى وہ كوئى خير و بھلائى كا عمل كرتا ہے تو بطور سزا اس كے مقدر ميں وہ كچھ كر ديا جاتا ہے جو اسے تباہ و فاسد كر كے ركھ ديتا ہے؛ اور آپ كو بہت ہى كم نظر آئيگا كہ جو چھوٹى عمر ميں ايسا ہوتا ہے تو وہ بڑا ہو كر اس سے بھى بڑھ كر شرير بن جاتا ہے، اور اسے غالبا نہ تو علم نافع كى توفيق ہوتى ہے، اور نہ ہى كسى عمل صالح اور سچى توبہ كى، جب يہ مقرر شدہ ہے تو پھر لواطت كا عمل سب سے برا ہوا، اور دنيا و آخرت ميں اس كى سزا بھى سب سے بڑى اور عظيم ہوئى.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اسے قتل كرنے پر متفق ہيں، اور ان ميں سے كوئى بھى دو صحابى مختلف نہيں، بلكہ صرف اسے قتل كرنے كے طريقہ ميں ان كے اقوال مختلف ہيں، جسے بعض لوگ اسے قتل كرنے ميں اختلاف خيال كرتے ہيں، تو اس نے اسے ايسا مسئلہ بيان كيا ہے كہ اس ميں صحابہ كرام كا نزاع تھا، حالانكہ يہ مسئلہ تو صحابہ كرام كے مابين مسئلہ اجماع ہے، نہ كہ مسئلہ نزاع " انتہى مختصرا.

ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 6 / 174 ).

اور اس كلام كى اصل ابن قيم كى ہے جو انہوں نے اپنى كتاب " الجواب الكافى لمن سأل عن الدواء الشافي " بيان كى ہے.

ليكن اگر جس كے ساتھ لواطت كا عمل كيا گيا ہے وہ مجبور و مكرہ ہو يعنى اس پر زبردستى كى گئى ہو تو اس پر كوئى سزا نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے بھول چوك اور جس پر انہيں مجبور اور زبردستى كى گئى ہو وہ معاف كر ديا ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2045 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 38622 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات