جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

واقعۂِ اسراء و معراج کو افسانوی قصہ قرار دینے والے کا رد

سوال

ہمارے ہاں لیبیا میں کسی نے اسراء ور معراج کے واقعہ سے متعلق ہرزہ سرائی کی ہے، ایک اخبار میں نشر ہونے والے اپنے مضمون میں اس شخص کا کہنا ہے کہ: واقعۂِ معراج محض افسانوی قصہ ہے کسی انسان کیساتھ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، اس بارے میں اس شخص نے قرآن مجید کی آیت کو دلیل بنایا ہے، اس میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
( أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَقْرَأُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَراً رَسُولاً)
ترجمہ: یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے تا آنکہ آپ ہم پر کتاب نازل کریں جس کو ہم پڑھ لیں ، آپ ان سے کہہ دیں: پاک ہے میرا پروردگار! میں تو محض ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں ۔[الإسراء:93]
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ: قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمان پر چڑھ جانے کے امکان کی بھی نفی کر دی، اس لیے واقعۂِ معراج قرآن مجید کی اس آیت سے متصادم ہے۔
لہذا معراج کی حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف خواب کی حالت میں آپ نے سب کچھ دیکھا تھا، اس کیلیے مضمون نگار نے اس آیت کو دلیل بنایا:
( وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ )
ترجمہ: اور جو منظر ہم نے آپ کو دکھایا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کیلیے ہی ہم نے بنایا ہے[الإسراء:60]۔
سب سے آخر میں یہ آں جناب سے گزارش کرونگا کہ:
اس مضمون کی وجہ سے شبہات جنم لے رہے ہیں، لیکن میں ایمان رکھتا ہوں کہ یہ معجزہ ہے، اس لیے آپ اس کا جواب مرتب فرمائیں اور وضاحت فرمائیں، تا کہ کسی بھی انسان کے آسمانوں تک پہنچ جانے کی نفی کرنے والی آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ میں ظاہری اختلاف کو بھی ختم کیا جا سکے۔
یہ واضح رہے کہ میرا یہ ماننا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی اختلاف اور تعارض نہیں ہے۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یہ بالکل واضح بات ہے کہ  اسراء اور معراج اللہ تعالی کی ایسی نشانی تھی جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبوت کے دلائل عیاں ہوتے ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالی کے ہاں کیا مقام و مرتبہ ہے، اسی طرح اس واقعہ سے اللہ تعالی کی قدرتِ مطلق کا بھی پتا چلتا ہے، اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی تمام تر مخلوقات سے  بلند ہے، اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ )
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام  سے لے کر مسجد اقصی تک سیر کرائی، جس کے اردگرد کو ہم نے برکت  دے رکھی ہے [اور اس سے غرض یہ تھی] کہ ہم اپنے بندے کو اپنی بعض نشانیاں  دکھائیں ۔ بلاشبہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [الإسراء:1]

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر  طور پر ثابت ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں  پر لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے سب آسمانوں کے دروازے کھولے گئے، حتی کہ آپ ساتویں آسمان سے بھی آگے چلے گئے، پھر اللہ تعالی نے  آپ سے گفتگو بھی فرمائی، پانچ نمازیں فرض کیں جو کہ ابتداء میں اللہ تعالی کی طرف سے پچاس نمازوں کی صورت میں فرض کی گئیں تھیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اللہ تعالی سے تخفیف کا مطالبہ کرتے رہے  یہاں تک  کہ اللہ تعالی نے انہیں کم کر کے پانچ   کر دیا اور یہ اب پانچ عملاً ہیں لیکن اجر میں پچاس ہی ہیں؛ کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا زیادہ ملتا ہے، اور اس پر اللہ کا شکر  ہے۔

لوگوں کا اس بارے میں اختلاف ہے : کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرا اور معراج  خواب میں ہوا تھا ، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں آسمان پر لے جایا گیا، اس بارے میں متعدد دلائل موجود ہیں:

امام طحاوی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب:  "عقیدہ طحاویہ" میں کہتے ہیں:
"معراج  حق اور ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں بہ نفس نفیس آسمانوں کی طرف لے جایا گیا، پھر جتنا اللہ تعالی نے چاہا اتنا مزید آگے بھی گئے، اللہ تعالی نے آپ کی تکریم فرمائی اور آپ کی طرف جو چاہا وحی فرمایا، جو کچھ آپ نے دیکھا اسے دل نے نہیں جھٹلایا، اللہ تعالی آپ پر دنیا اور آخرت میں رحمتیں نازل فرمائے " انتہی

اسی طرح ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ "شرح عقیدہ طحاویہ" میں کہتے ہیں:
"لوگوں کا اسرا و معراج کے بارے میں اختلاف ہے:
کچھ کا کہنا ہے کہ : آپ کی روح کو لے جایا گیا تھا، آپ کا جسم اطہر  نہیں لے جایا گیا، یہ بات ابن اسحاق نے عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے، اسی طرح حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح کی بات نقل کی گئی ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسرا کے بارے میں دونوں تعبیروں  میں فرق ہے: ا) آپ کو خواب میں سیر کروائی گئی، 2)  آپ کی صرف روح کو سیر کروائی گئی جسم ساتھ نہیں تھا۔
یہاں عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہما نے یہ نہیں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں سیر کروائی گئی، بلکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو سیر کروائی گئی تھی لیکن آپ کا جسم ساتھ نہیں تھا۔

دونوں میں فرق یہ ہے کہ: خواب میں سونے والے کو جو کچھ نظر آتا ہے وہ پہلے سے ذہن میں موجود چیزوں کا تصور اور تخیل محسوس شکل میں دیکھتا ہے، چنانچہ خواب دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے آسمان کی طرف لے جایا گیا، اور پھر مکہ واپس آ گیا، لیکن اس کی روح نہ  تو آسمان پر گئی ہوتی ہے اور نہ ہی واپس آتی ہے، یہ محض خوابوں کا فرشتہ سوئے ہوئے شخص کے ذہن میں تصورات پیدا  کرتا ہے۔
لہذا معاویہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا یہ مقصد ہر گز  نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں معراج کروایا گیا، بلکہ  آپ دونوں کا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کو  سیر کروائی گئی، چنانچہ روح جسم سے نکل کر سیر کے بعد واپس آ گئی۔
آپ دونوں کے مطابق یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت  میں شمار ہوتا ہے، کسی اور میں ایسا ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ کسی اور کی روح آسمانوں کی طرف مکمل طور پر اسی وقت  جائے گی جب انسان مر جائے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرا دو مرتبہ ہوا ہے، ایک بار بیداری میں اور دوسری بار نیند کی حالت میں۔۔۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک بار وحی نازل ہونے سے پہلے اور ایک بار وحی نازل ہونے کے بعد ۔

اسی طرح کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ : معراج تین بار ہوا ہے، ایک بار وحی نازل ہونے سے پہلے اور دو بار وحی نازل ہونے کے بعد ؛ یعنی جب بھی معراج کے واقعات سے متعلق کوئی اشکال پیدا ہوا تو تطبیق دینے کیلیے انہوں نے معراج کے واقعات کو بھی اسی طرح بڑھانا شروع کر دیا، لیکن یہ وطیرہ  قدرے کمزور محدثین کا ہے؛ کیونکہ ائمہ محدثین معراج کے بارے میں جو بات نقل کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ معراج اصل میں ایک ہی بار مکہ میں بعثت کے بعد لیکن ہجرت سے ایک سال یا ایک سال دو ماہ پہلے  ہوا ، جیسے کہ یہ بات ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے۔۔۔
حدیث اسرا میں صحیح ثابت ہے  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسد اطہر کیساتھ  مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے جایا گیا، آپ جبریل علیہ ا لسلام کی رفاقت میں براق پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصی اترے اور وہاں انبیا ءکی امامت کروائی، پھر براق کو مسجد کے دروازے کے کنڈے سے باندھا ، یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللحم میں اترے تھے اور وہاں نماز بھی ادا کی لیکن یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔

اس کے بعد آپ کو بیت المقدس سے اسی رات میں آسمانِ دنیا تک لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے دروازہ کھلوایا  تو فرشتوں نے دروازہ کھول دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پر ابو البشر آدم علیہ السلام کو دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا تو آدم علیہ السلام نے  آپ کو خوش آمدید کہا اور سلام کا جواب دیا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار بھی کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا۔۔۔

 عقیدہ طحاویہ کے شارح لکھتے ہیں کہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرا و معراج جسد اطہر سمیت ہوا ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام  سے لے کر مسجد اقصی تک سیر کرائی۔ [الإسراء:1]

[یہ آیت اس کی دلیل یوں بنتی ہے کہ] "عبد" اس وقت بندے پر بولا جاتا ہے جب جسم اور روح کا مجموعہ ہو، جیسے کہ انسان اسی وقت بولا جاتا ہے جب جسد اور روح  دونوں کا مجموعہ  ہو، لہذا جب بھی عبد اور انسان کا لفظ مطلق بولا جائے تو یہی اس کا معنی اور یہی بات درست بھی ہے، اس لیے آیت کے مطابق  اسرا اور معراج جسم و روح دونوں کو کروایا گیا۔
نیز یہ بات عقلی طور پر بھی ناممکن نہیں ہے، چنانچہ اگر کسی بشر کے آسمان پر جانے کو محال سمجھا جائے تو فرشتوں کے زمین پر آنے کو بھی محال سمجھا جائے گا، اور یہ بات نبوت کے انکار تک پہنچا سکتی ہے جو کہ صریح کفر ہے" انتہی
"شرح الطحاوية" (1/245)

اسی طرح ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر (3/33) میں کہتے ہیں:
"لوگوں کا اس بارے  میں اختلاف ہے کہ کیا اسرا و معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن اور روح دونوں کو ہوا تھا یا صرف روح کو ؟ اس بارے میں دو اقوال ہیں:

چنانچہ اکثر علمائے کرام کا یہی کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم و روح دونوں کیساتھ بیداری کی حالت میں سیر کروائی گئی، خواب میں یہ سیر نہیں ہوئی، تاہم  اس موقف کے قائلین علمائے کرام اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے خواب بھی دیکھا ہو، اور پھر بیداری کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیر کروائی گئی ہو۔

کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بھی خواب آتا تھا تو وہ روزِ روشن کی طرح بعینہٖ رونما ہو جاتا تھا۔

اس بارے میں دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِيْ بَارَكْنَا حَوْلَهُ)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام  سے لے کر مسجد اقصی تک سیر کرائی، جس کے ارد گرد خطے کو ہم نے بابرکت بنایا۔ [الإسراء:1]
اس آیت مبارکہ میں " سُبْحَانَ الَّذِي " کہہ کر اللہ تعالی  کی تسبیح بیان کی گئی ہے، اور تسبیح اسی وقت بیان کی جاتی ہے جب کوئی عظیم ترین معاملہ در پیش ہو، چنانچہ اگر معراج خواب میں ہی ہوا تھا تو ایسا عظیم معاملہ ہے ہی نہیں کہ جس پر تسبیح بیان کیا جائے، اسی طرح قریش کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے کی ضرورت نہیں تھی، ایسے ہی مسلمان ہو جانے والے کمزور دل لوگ بھی  آپ کی اس بات پر مرتد نہ ہوتے۔

اور ویسے بھی "عبد" کا لفظ اسی وقت انسان پر بولا جاتا ہے جب روح اور جسم دونوں یکجا ہوں، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
(أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا) [اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کروائی] اسی طرح اللہ تعالی کا  یہ بھی فرمان ہے کہ:
( وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ )
ترجمہ: اور جو منظر ہم نے آپ کو دکھایا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کیلیے ہی ہم نے بنایا ہے[الإسراء:60]
ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ : اس سے وہ منظر مراد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں نے معراج کی رات دیکھا تھا، اور اس آیت میں مذکور "ملعون درخت" سے مراد تھوہر کا درخت ہے ، اس اثر کو بخاری : (2888) نے روایت کیا ہے۔

ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى )
ترجمہ: نہ نظر بہکی اور نہ ہی حد سے متجاوز ہوئی [ النجم:17]
اس آیت میں قوت بصارت کا ذکر ہے، اور یہ جسم کا خاصہ ہے روح کا نہیں ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا براق پر سوار ہونا بھی جسم کیساتھ معراج ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ براق سفید رنگ کا چمک دار جانور ہے، اور سواری کی ضرورت جسم کو ہوتی ہے روح کو ادھر ادھر جانے کیلیے سواری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم" انتہی

اسی طرح شیخ  حافظ حکمی رحمہ اللہ "معارج القبول" (3/1067) میں کہتے ہیں کہ:
"اگر اسرا اور معراج  صرف روح کو کروایا جاتا جسم شامل نہ ہوتا تو یہ کوئی معجزہ ہی نہیں بنتا، اور اسی طرح قریش کی تکذیب بھی بے مقصد اور بے معنی ہوتی، اور ان کی یہ باتیں بھی ہوا ہو جاتیں جو انہوں نے واقعۂِ معراج کے بارے میں کہیں تھی کہ: "ہم تو بیت المقدس جانے کیلیے اونٹوں کو چلا چلا کر ہلکان کر دیتے ہیں، اس کیلیے ایک ماہ جانے کیلیے اور دوسرا ماہ آنے کیلیے درکار ہوتا ہے، لیکن محمد کا کہنا ہے کہ اسے راتوں رات ہی  بیت المقدس کی سیر کروا کر صبح سے پہلے واپس بھی پہنچا دیا گیا" اس کے علاوہ بھی انہوں نے باتیں بنائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا، اگر یہ خواب ہی تھا تو اسے بعید از عقل سمجھنے کی کوئی وجہ ہی نہیں بنتی؛ کیونکہ انسان کو خواب میں بیت المقدس تو کیا اس سے بھی دور دور کی چیزیں نظر آ جاتی ہیں، لیکن پھر بھی خواب میں ایسی چیزوں کو دیکھنے والے کی تکذیب نہیں کی جاتی۔

اس لیے حقیقت میں ہوا ہی یوں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ کو اپنے اسرا و معراج کا حقیقی واقعہ بیداری کی حالت میں ہونے کا ذکر کیا تھا ، خواب کی حالت میں ہونے کا ذکر نہیں کیا، اسی لیے مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا قرار دیا اور اسے بعید از عقل جانتے ہوئے آپ کا مذاق بھی اڑایا، اس سب کے ساتھ ساتھ ان کی باتوں میں حقارت آمیز لہجہ بھی تھا، کیونکہ انہیں اللہ تعالی کی قدرت کے بارے میں بہت ہی معمولی سی معلومات حاصل تھیں کہ اللہ تعالی جو چاہے کر سکتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  سے اس واقعہ کے بارے میں ذکر کیا تو  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا ہے تو پھر یہ سچ ہے"
لوگوں نے تعجب سے کہا: تو کیا تم اس کی بات کی تصدیق کرتے ہو؟!
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تو ان کی تصدیق اس سے بھی دور یعنی آسمان سے آنے والی بات کی بھی کرتا ہوں جو کہ صبح شام آپ ہمیں بتلاتے رہتے ہیں-یا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسی سے ملتی جلتی بات کی تھی-" انتہی

حافظ ابو خطاب عمر بن دحیہ اپنی کتاب: " التنوير في مولد السراج المنير " میں کہتے ہیں کہ:
"اسرا اور معراج سے متعلق متواتر روایات موجود ہیں: جن میں عمر بن خطاب، علی، ابن مسعود، ابو ذر، مالک بن صعصعہ، ابو ہریرہ، ابو سعید، ابن عباس، شداد بن اوس، ابی بن کعب، عبد الرحمن بن قرط، ابو حبہ انصاری، ابو لیلی انصاری، عبد اللہ بن عمرو، جابر، حذیفہ، بریدہ، ابو ایوب، ابو امامہ، سمرہ بن جندب، ابو حمرا، صہیب رومی، ام ہانی، عائشہ ، اسما بنت ابو بکر رضی اللہ عنہم جمیعاً شامل ہیں۔
کچھ صحابہ کرام نے اسرا و معراج کا قصہ مکمل بیان کیا ہے، کچھ نے مختصر بیان کیا ہے، یہ سب روایات  معتمد کتب  میں موجود ہیں، یہ الگ بات ہے کہ کچھ روایات  صحت کے اصولوں کے مطابق پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتیں۔

تاہم  اسرا اور معراج کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ، لیکن زندیق اور ملحد لوگ اس کا انکار کرتے ہیں، ان کا ارادہ تو یہ ہے کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بھجا دیں ، لیکن اللہ تعالی اپنے نور کو مکمل کر ے گا چاہے کافروں کیلیے ناگوار ہی گزرے" انتہی
ماخوذ از : "تفسیر ابن کثیر" (3/36)

مضمون نگار کے طرز تحریر  سے بہت ہی تعجب ہوا  کہ انہوں نے قرآنی آیت سے دلیل لیتے ہوئے کفار کے ایک ہی مطالبے کا ذکر کیا بقیہ کو چھوڑ دیا اور باور یہ کروایا کہ قرآن مجید کی آیت :
(قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَراً رَسُولاً)
ترجمہ: آپ ان سے کہہ دیں: پاک ہے میرا پروردگار! میں تو محض ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں ۔[الإسراء:93]
کہ کفار کے صرف اسی ایک مطالبے کا جواب ہے اور وہ ہے: آسمان کی طرف چڑھنا، اور قرآن کی آیت میں اس کی نفی کی گئی ہے۔

حالانکہ حقیقت میں یہ جواب مشرکین کی  ہٹ دھرمی اور ضدی قسم کے متعدد مطالبوں کے  جواب میں دیا گیا ہے، آئیں ہم آپ کے سامنے قرآن مجید کے بیان کردہ تمام مطالب بیان کرتے ہیں:
( وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [90]أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً [91]أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلاً [92] أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَقْرَأُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَراً رَسُولاً)
ترجمہ: اور کہنے لگے: ہم اس وقت تک آپ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے لئے زمین سے چشمہ نہ جاری کردیں  [90] یا آپ کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو تو آپ اس میں جا بجا نہریں بہا دیں  [91] یا آپ آسمان کو ٹکرے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں جیسے آپ کا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں  [92] یا آپ کے لئے سونے کا کوئی گھر ہو یا  آپ آسمان میں چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے تا آنکہ آپ ہم پر کتاب  نازل کریں جس کو ہم پڑھ لیں ، آپ ان سے کہہ دیں: پاک ہے میرا پروردگار! میں تو محض ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں [الاسراء: 90-93]

اب یہاں خود ہی غور کریں کہ ان تمام مطالبوں کے سامنے قرآن مجید کا یہ جواب ہی مناسب ہے کہ:

(قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَراً رَسُولاً)
ترجمہ: آپ ان سے کہہ دیں: پاک ہے میرا پروردگار! میں تو محض ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں ۔[الإسراء:93]

تو کیا کسی انسان کیلیے یہ ممکن ہے  کہ زمین کو پھاڑ کر وہاں  سے چشمے جاری کرے؟ یا آسمان گرا دے، یا اللہ تعالی !  کو یا فرشتوں ! کو لے آئے، یا آسمانوں میں چڑھ جائے، اور وہاں سے ہر کافر کے نام ایک ایک کتاب لیکر آئے! جیسے کہ یہ تمام باتیں مجاہد رحمہ اللہ اور دیگر مفسرین سے ثابت ہیں۔

ہر کافر کیلیے الگ الگ کتاب کا مطالبہ ایک دوسری آیت سے بھی موافقت رکھتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُؤْتَى صُحُفاً مُنَشَّرَةً)
ترجمہ: بلکہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ انہیں کھلی ہوئی کتاب دی جائے۔[ المدثر :52]

اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر شخص کیلیے آسمان سے کتاب نازل کرنا و دیگر مطالبات پورے کرنا کسی بھی بشر کے بس کی بات نہیں ہے، چنانچہ مذکورہ آیات کے اختتام پر جو کہا گیا ہے وہ کفار کے ان تمام مطالبوں کے جواب میں کہا گیا ہے، کسی ایک مطالبے کے متعلق نہیں فرمایا گیا، وگرنہ تو ان مطالبات میں ایسی چیزیں بھی موجود ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد میں ثابت ہوئی ہیں، مثال کے طور پر: یہ بات ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں  سے پانی بہہ نکلا، جیسے کہ صحیح بخاری : (3576) و دیگر کتب میں ہے، چنانچہ اگر انگلیوں سے پانی خارج ہو سکتا ہے تو زمین سے چشمہ جاری کرنا کیا نا ممکن رہ جائے گا؟ اس لیے کفار کے مطالبے کے مطابق کھجوروں کا درخت ہو اور اس میں نہریں بہتی ہوں تو یہ بھی ممکنات  میں سےہے  نا ممکن نہیں ہے۔

چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ کفار مکہ اصل میں ان چیزوں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی غرض نہیں رکھتے تھے، بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف ہٹ دھرمی اور ضدی پن کی انتہا کا اظہار کرنا تھا، کہ اپنی سر کشی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل میں ڈالیں۔

اسی طرح طاہر ابن عاشور رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مشرکین مکہ کا مطالبہ  انتہائی درجے کی ہٹ دھرمی اور ضد پر مبنی تھا تو اللہ تعالی  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ انہیں ان کی بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیں اور اس کیلیے " سُبْحَانَ رَبِّي " کا لفظ استعمال کریں جو کہ تعجب میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔ پھر اس کے بعد استفہام انکاری لائیں۔
نیز حصر کا معنی رکھنے والے جملے کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہونے کے ساتھ ساتھ صرف بشر ہیں ، مطلب یہ ہے کہ : میں کوئی مختار کل پروردگار نہیں ہوں کہ جو کچھ مجھ سے مطالبہ کیا جائے گا میں وہی پیدا کر کے دکھا دوں ، تو میں اللہ تعالی کو یا فرشتوں کو کیسے  لا سکتا ہوں، اور اسی طرح میں زمین میں ایسی چیز کیسے پیدا کر سکتا ہوں جو ابھی زمین میں پیدا ہی نہیں کی گئیں" انتہی
"التحرير والتنوير" ( 15/210-211)

سوم:

محترم بھائی! آپ اپنے دل کا مکمل خیال کریں، روپے پیسے کی فکر کرنے کی بجائے اپنا دین محفوظ کریں؛ شیاطین چاہے انسان کی صورت میں ہو ں یا جنوں کی شکل میں کسی کو بھی اپنے دل سے یقین کی دولت ضائع مت کرنے دیں، اور نہ ہی  اپنے ایمان میں کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات  پیدا مت ہونے دیں ؛ چونکہ آپ نے شکوک و شبہات پیدا کرنے والے لوگوں سے بچاؤ کیلیے شرعی علم حاصل نہیں کیا ہوا  اس لیے آپ اس قسم کے لوگوں سے دور ہی رہیں، ان کے ساتھ مت بیٹھیں، ان کے فورمز اور بلاگ مت پڑھیں، اس کی چکنی چپڑی باتیں مت سنیں، کیونکہ اگر دل میں ایک بار شبہات جا گزین ہو جائیں تو واپس نکلنے کا کسی  کو پتا نہیں ہوتا، اسی طرح اگر آپ کو کسی فتنے کا سامنا ہو تو آپ کو اس سے بھی محفوظ رہنے کا علم نہیں ہو سکتا اس لیے آپ فتنوں اور شبہات سے دور ہی رہیں۔

ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور سب موحد بندوں کیلیے ہدایت و کامیابی کی دعا کرتے ہیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب