الحمد للہ.
اول:
اگر داڑھی اتنی ہلکی ہو کہ اس کے نیچے سے جلد بھی نظر آئے تو داڑھی کا خلال اور نیچے نظر آنے والی جلد کو دھونا لازم ہے؛ کیونکہ یہ چہرے کی حد بندی میں شامل ہے۔
اور اگر داڑھی اتنی گھنی ہو کہ نیچے والی جلد نظر ہی نہ آئے، تو ایسی جلد کو دھونا لازم نہیں ہے البتہ خلال کرنا مستحب ہے، یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے اور یہی راجح ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر داڑھی ہلکی ہو کہ نیچے سے جلد بھی نظر آئے تو جلد کو دھونا بھی لازم ہے، اور اگر داڑھی گھنی ہو کہ جلد نظر نہ آئے تو پھر جلد کو دھونا واجب نہیں ہے البتہ داڑھی کا خلال کرنا مستحب ہے۔
اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کوئی جان بوجھ کر داڑھی کا خلال نہ کرے تو اعادہ کرے گا؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی داڑھی کا خلال کیا کرتے تھے۔ اس روایت کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس مسئلے میں یہ صحیح ترین حدیث ہے۔ نیز ابو داود نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ: (نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب وضو کرتے تو پانی کا ایک چلو بھر کر اپنی ٹھوڑی کے نیچے ڈالتے۔ آپ نے فرمایا: مجھے میرے رب نے اسی طرح حکم دیا ہے۔) اسی طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب وضو کرتے تو اپنے رخساروں کو تھوڑا ملتے اور پھر اپنی داڑھی میں انگلیاں داخل کر کے داڑھی کا خلال کرتے تھے۔) ابن ماجہ
عطاء اور ابو ثور کہتے ہیں: چہرے کے بالوں کی جلد کو بھی وضو میں دھونا ضروری ہے بالکل ایسے ہی جیسے غسل جنابت میں دھونا ضروری ہوتا ہے؛ کیونکہ وضو میں بھی بندے کو اسی طرح چہرہ دھونے کا حکم دیا گیا ہے جیسے غسل جنابت میں چہرہ دھونے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا جو کام ایک میں لازم ہے وہی کام دوسرے میں بھی لازم ہو گا۔
جبکہ اکثر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ: داڑھی کا خلال کرنا واجب نہیں ہے، خلال نہ کرنے کی رخصت ابن عمر، حسن بن علی رضی اللہ عنہم ، طاؤس، نخعی، شعبی، ابو عالیہ، مجاہد، ابو القاسم، محمد بن علی، سعید بن عبد العزیز اور ابن المنذر رحمہم اللہ جمیعا سے منقول ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے چہرہ دھونے کا حکم تو دیا ہے لیکن خلال کرنے کا تذکرہ بھی نہیں کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا طریقہ بیان کرنے والے اکثر صحابہ کرام نے داڑھی کے خلال کا تذکرہ نہیں کیا، لہذا اگر خلال کرنا واجب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی بھی وضو میں داڑھی کا خلال ترک نہ فرماتے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر وضو میں داڑھی کا خلال کیا ہوتا تو سب یا اکثر صحابہ کرام اسے ضرور بیان کرتے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اس عمل کو ترک کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ گھنے بالوں کے نیچے کی جلد دھونا واجب نہیں ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی داڑھی کے بال بھی گھنے تھے، چنانچہ اچھی طرح خلال کے بغیر داڑھی کے نیچے جلد تک پانی کا پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا، اور نبی مکرم کا کبھی کبھار داڑھی کا خلال کرنا اس کے مستحب ہونے کی دلیل ہے، واللہ اعلم" ختم شد
"المغنی" (1/74)
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"گھنی داڑھی کے ظاہری حصے کو دھونا لازم ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چنانچہ داڑھی کے اندرونی حصے اور نیچے والی جلد کو دھونا واجب نہیں ہے، یہی صحیح اور مشہور [شافعی] موقف ہے، اس کی صراحت امام شافعی رحمہ اللہ نے کی ہے اور جمہور شافعی فقہائے کرام نے اس موقف کو حتمی قرار دیا ہے، یہی موقف امام مالک، ابو حنیفہ، احمد اور صحابہ کرام و تابعین عظام وغیرہ کا ہے۔
رافعیؒ نے ایک قول اور ایک وجہ نقل کی ہے کہ جلد کو دھونا لازم ہے، یہی مزنی اور ابو ثور کا موقف ہے۔" ختم شد
"المجموع" (1/408)
جمہور اہل علم کا موقف کہ گھنی داڑھی کا خلال کرنا واجب نہیں ہے اور گھنی داڑھی کے اندرونی حصے کو دھونا واجب نہیں ہے ان دونوں امور کی دلیل صحیح بخاری: (140) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: انہوں نے وضو کیا پھر اپنا چہرہ دھویا، اور پانی کا ایک چلو لے کر اس سے کلی اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑا، پھر آپ نے ایک اور چلو لیا اور اس کے ساتھ اپنا دوسرا ہاتھ ملا کر اپنا چہرہ دھویا ۔۔۔ پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس حدیث سے مذکورہ دونوں باتوں کی دلیل اس طرح لی جاتی ہے کہ: نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی، اور صرف ایک چلو سے چہرہ اور گھنی داڑھی اور نیچے کی جلد دھونا ممکن ہی نہیں، تو اس سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف داڑھی کے ظاہری حصے کو دھونے پر اکتفا فرمایا۔
مزید کے لیے دیکھیں: "المجموع" (1/408) ، "نيل الأوطار" (1/190)
دوم:
داڑھی کے خلال کو واجب قرار دینے والوں کی دلیل ابو داود: (145) میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب وضو کرتے تو پانی کا ایک چلو بھر کر اپنی ٹھوڑی کے نیچے ڈالتے۔ آپ نے فرمایا: مجھے میرے رب نے اسی طرح حکم دیا ہے۔) تو اس حدیث کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے، چنانچہ :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ابو داود نے بیان کیا ہے اور اس کی سند میں ولید بن زروان ہے جو کہ مجہول الحال ہے ۔۔۔ اس کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مزید اسانید بھی ہیں لیکن وہ بھی ضعیف ہیں۔" ختم شد
مختصراً ماخوذ از: "التلخيص الحبير" (1/86)
تاہم اس حدیث کو ابن قیم رحمہ اللہ نے "تہذیب السنن" میں اور البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
اور اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو استحباب پر محمول ہو گی تا کہ دیگر دلائل اور اس حدیث کے درمیان تطبیق ہو سکے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا طریقہ بیان کرنے والوں میں سے اکثریت نے داڑھی کے خلال کا تذکرہ نہیں کیا، اور اگر داڑھی کا خلال واجب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے کبھی بھی ترک نہ کرتے ، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ داڑھی کا خلال کیا ہوتا تو اسے نبوی وضو کا طریقہ بیان کرنے والے تمام یا اکثر صحابہ کرام ضرور بیان کرتے ۔
سوم:
گھنی داڑھی کا ظاہری حصہ ، اور داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کو دھونا لازم ہے؛ کیونکہ یہ بھی چہرے کی تعریف میں شامل ہے، اس لیے گھنی داڑھی کا ظاہری حصہ دھونا واجب ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وضو کی سنتوں میں گھنی داڑھی کا خلال کرنا شامل ہے۔
داڑھی ہلکی ہوتی ہے یا گھنی۔ ہلکی داڑھی اسے کہتے ہیں جس سے نیچے کی جلد چھپ نہ سکے، اس صورت میں داڑھی اور داڑھی کے نیچے چہرے کی جلد دونوں کو دھونا لازم ہے؛ کیونکہ اگر داڑھی میں سے جلد بھی نظر آ رہی ہے تو اس جلد کو دھونا بھی لازم ہے۔ جبکہ گھنی داڑھی وہ ہوتی ہے جس سے نیچے کی جلد بھی چھپ جائے، اس صورت میں گھنی داڑھی کے صرف ظاہری حصے کو دھونا لازم ہے۔ جبکہ مشہور حنبلی موقف یہ ہے کہ لٹکتی ہوئی داڑھی کو دھونا لازم ہے۔
جبکہ ایک موقف یہ ہے کہ: لٹکتی ہوئی داڑھی کو دھونا بھی واجب نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے سر کے لٹکتے ہوئے بالوں کا مسح کرنا لازم نہیں ہے۔
اس مسئلے میں بہتر یہ لگتا ہے کہ داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کو دھونا بھی واجب ہے۔
سر اور داڑھی کے بالوں میں تفریق کی وجہ یہ ہے کہ: داڑھی جتنی بھی لمبی ہو جائے یہ چہرے کی تعریف میں شامل رہے گی، جبکہ سر کے بال لمبے ہو جائیں تو سر کے بال سر میں شامل نہیں ہوں گے؛ کیونکہ سر جسم کا بلند ترین حصہ ہے اور لمبے بال جسم کا بلند ترین حصہ نہیں رہتے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (1/106)
واللہ اعلم