سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ولد زنا كا نسب اور اس پر مرتب ہونے والے احكام

85043

تاریخ اشاعت : 12-01-2010

مشاہدات : 21756

سوال

اہل كتاب كى ايك اجنبى عورت سے بتيس برس قبل زنا سے ايك بچہ پيدا ہوا، اور جب اس كى عمر پچيس برس ہوئى تو وہ اپنے والدين كو تلاشك كرنے لگا وہ بچہ اخلاق حسنہ اور اچھے دل كا مالك ہے، اس نے ماں كو تلاش كر ليا، اور ايك ہفتہ قبل مجھے باپ كى صورت ميں تلاش كر ليا، اس كا ثبوت ڈى اين اے ٹيسٹ سے ملا ہے كہ اس كا باپ ميں ہوں.
ميں نے اكتيس برس قبل ايك مسلمان عورت سے شادى كى تھى اور اب اس ميں سے ميرے ايك بيٹى اور دو بيٹے ہيں، اور الحمد للہ ميرے چار پوتے اور نواسے بھى ہيں، اللہ نے مجھے ہدايت سے نواز اور ميں اللہ كے ڈر اور خوف كى طرف واپس پلٹ آيا، الحمد للہ اب ميں دينى امور كا التزام كرتا ہوں اور نماز روزہ اور زكاۃ كى بھى پابندى كر رہا ہوں، اور تين برس قبل ميں اور ميرى بيوى نے حج اور عمرہ بھى كر ليا ہے، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں ہدايت اور توبہ پر قائم ركھے.
برائے مہربانى مجھے يہ بتائيں كہ آيا وہ نوجوان ميرى بيوى اور بيٹى كا محرم ہے، اور كيا وہ ميرى اولاد كا بھائى شمار ہو گا ؟
كيا ميں اسے اپنى فيملى كا ايك فرد شمار كروں، اس موضوع كے بارہ مكمل تفصيل كے ساتھ جواب ديں. ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم اللہ سے دعا گو ہيں كہ وہ ہمارى اور آپ كى بخشش فرمائے، اور اچھى توبہ اور اللہ سبحانہ و تعالى كى طرف رجوع كرنے كى توفيق دے، اور اپنے فضل و كرم سے ہم سب كو نيك و صالح اولاد عطا كرے.

يہ علم ميں ركھيں كہ توبہ اور ہدايت سب سے بہتر چيز ہے جس كى بندے كو دنيا ميں توفيق حاصل ہوتى ہے، اور ہم پر اللہ كى يہى سب سے عظيم نعمت ہے، اس ليے اس كا جتنا بھى شكر ادا كيا جا سكے كرنا چاہيے، اور اس كى تجديد كى حرص ركھنى چاہيے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك دن ميں ايك سو بار توبہ و استغفار كيا كرتے تھے، جيسا كہ صحيح مسلم كى حديث نمبر ( 2702 ) ميں وارد ہے.

دوم:

غير شرعى اولاد كو منسوب كرنے كے متعلق فقھاء كرام نے شرح و بسط كے ساتھ تفصيلا كلام كى ہے، ان كا كہنا ہے:

جس عورت سے زنا كيا گيا ہے اس كى دو حالتيں ہونگى:

پہلى حالت:

يا تو وہ شادى شدہ ہو يعنى كسى كى بيوى ہو، اس حالت ميں جو بچہ بھى پيدا ہو گا وہ خاوند كى طرف منسوب كيا جائيگا كسى اور كى طرف منسوب نہيں، چاہے وہ يقينى طور پر كسى اور كا بھى ہو جس نے اس سے زنا كيا ہو، ليكن اگر خاوند اور بيوى كے درميان لعان ہو جائے اور خاوند بچہ كا انكار كر دے تو اس صورت بچہ خاوند كى طرف نہى بلكہ ماں كى طرف منسوب كيا جائيگا نہ كہ زانى مرد كى جانب.

دوسرى حالت:

غير شادى شدہ ہو:

اگر اس حالت ميں زنا كا بچہ پيدا ہو جائے تو اس كو منسوب كرنے ميں علماء كا اختلاف ہے آيا اسے زنا كرنے والے كى طرف منسوب كيا جائيگا يا كہ ماں كى طرف ؟

اس ميں دو قول ہيں: ان دونوں كو دلائل كے ساتھ سوال نمبر ( 117 ) اور ( 2103 ) اور ( 3625 ) كے جوابات ميں بيان كيا جا چكا ہے آپ ان كا مطالعہ كريں.

اس ميں بيان ہوا ہے كہ: راجح يہى ہے كہ زانى كى طرف بچہ منسوب كرنا صحيح نہيں، اس ليے ولد زنا كو زانى كى طرف منسوب كرنا جائز نہيں، بلكہ اسے بچے كى ماں كى طرف منسوب كيا جائيگا، چاہے بچہ كسى معين زانى كے ہونے كا قطعى طور پر يقين بھى ہو.

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" علماء كرام كے اقوال ميں صحيح قول يہى ہے كہ بچہ وطئ كرنے والے كى طرف اسى حالت ميں منسوب ہو گا جب يہ وطئ صحيح يا فاسد يا شبہ نكاح ميں ہو، يا پھر ملك يمين اور شبہ ملك يمين ميں كى گئى ہو، تو اس حالت ميں بچے كا نسب ثابت ہوگا اور وہ ايك دوسرے كے وارث ہونگے.

ليكن اگر وطئ زنا ميں ہو تو پھر بچہ زانى كى طرف ملحق نہيں كيا جائيگا، اور نہ ہى اس كى طرف نسب ثابت ہوگا، اس بنا پر وہ اس كا وارث بھى نہيں بنےگا " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 387 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:

" رہا ولد زنا تو اسے اس كى ماں كى طرف منسوب كيا جائيگا، اور اگر اسكى ماں مسلمان ہو تو اس بچے كا حكم بھى باقى سارے مسلمانوں جيسا ہوگا، اور ماں كے جرم يا اس كى ماں كے ساتھ زنا كرنے والے كى جرم كى بنا پر نہ تو بچے كو عيب ديا جائيگا، اور نہ ہى اس كا مؤاخذہ.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائيگى " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 34 ).

سوم:

يہ معلوم ہے كہ نسب كے ثبوت كے نتيجہ ميں بہت سارے احكام پر كلام كرنا پڑتى ہے، جس ميں رضاعت اور پرورش اور ولايت اور اخراجات و نفقہ اور وراثت اور قصاص چورى كى حد اور حد قذف اور گواہى وغيرہ كے احكام.

جب راجح يہى ہے كہ ولد زنا كا زانى كے ساتھ نسب ثابت نہيں ہوتا، تو پھر غير شرعى والد پر مندرجہ بالا احكام بھى ثابت نہيں ہونگے، بلكہ ان ميں اكثر احكام كى متحمل ماں ہو گى.

ليكن غير شرعى باپ ( يعنى زانى ) كے ايك چيز باقى رہتى ہے اور وہ حرمت نكاح كا مسئلہ ہے، عام اہل علم كے ہاں زنا سے پيدا شدہ بچے اور اس كے باپ اور اس كے رشتہ داروں كے مابين نكاح كى حرمت كے احكام ثابت ہونگے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" آدمى كے ليے زنا سے پيدا شدہ بيٹى اور بيٹے كى بيٹى اور بيٹى كى بيٹى اور زنا كى بھتيجى اور بھانجى سے پيدا شدہ كے ساتھ نكاح كرنا حرام ہے، عام فقھاء كا قول يہى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 485 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا زنا سے پيدا شدہ بيٹى كے ساتھ اس كا زانى باپ نكاح كر سكتا ہے ؟

جواب:

" الحمد للہ:

جمہور علماء كرام كا مسلك يہ ہے كہ اس سے شادى كرنى جائز نہيں، اور قطعى طور پر صحيح بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 134 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" انسان كے ليے زنا سے پيدا شدى بيٹى كے ساتھ نكاح كرنا حرام ہے، اس كى صراحت اس آيت ميں پائى جاتى ہے:

" حرام كى گئى ہيں تم پر تمہارے مائيں اور تمہارى بيٹياں "

كيونكہ حقيقى اور لغوى طور پر وہ اس كى بيٹى ہے، اور اس كے نطفہ سے ہى پيدا ہوئى ہے، اس ليے ابن زنا اپنى ماں پر حرام ہے، امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى رائے يہى ہے، اور مالكيہ اور حنابلہ كا يہى مذہب ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 36 / 210 ).

چہارم:

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر زنا سے پيدا شدہ آپ كے بيٹے كے ليے آپ كى بيٹيوں نے نكاح كرنا جائز نہيں، كيونكہ وہ اس كى بہنوں كے مقام پر ہيں اور اسى طرح آپ كى بيوى بھى.

ليكن اسكا يہ معنى نہيں كہ وہ ان كا محرم ہے اور ان كے ليے ان سے خلوت كرنا جائز ہوگا، يا پھر وہ اس كى موجودگى ميں پردہ نہ كريں، كيونكہ نكاح ميں حرمت سے ابدى حرمت لازم نہيں آتى جس سے خلوت وغيرہ مباح ہو جائے، يہ ايك زائد حكم ہے جو صرف شرعى محرم كے ليے ہى ثابت ہوتا ہے؛ اس ليے اس پر متنبہ رہنا ضرورى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" محض حرام: يہ زنا ہے جس سے حرمت ثابت ہوتى ہے اور اس سے محرميت يعنى محرم بننا ثابت نہيں ہوتا، اور نہ ہى ديكھنا مباح ہو جاتا ہے " انتہى بتصرف

ديكھيں: المغنى ( 7 / 482 ).

يہ سب كچھ اس نوجوان سے حسن سلوك كرنے ميں مانع نہيں، اور اسے مسلمان بنانے اور اس كو فيملى سے مربوط كرنے ميں مانع نہيں بنےگا، ليكن صرف اتنا ہے كہ اسے زنا كرنے والے باپ كى جانب منسوب نہ كيا جائے، اور نہ ہى فيملى كى لڑكياں اس سے پردہ كرنے ميں كوئى تساہل اور كوتاہى كريں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو خير و بھلائى اور سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب