الحمد للہ.
اول : پہلی بات تویہ ہے کہ اللہ تعالی کے سب کے سب احکام عدل وانصاف پر مبنی ہيں اوراس کے سب اقوال بھی سچ و صدق ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
اورآپ کےرب کا کلام سچائی اورعدل کےاعتبار سے کامل ہے الانعام ( 115 ) ۔
یعنی اقوال میں صدق وسچائي اوراحکام میں عدل وانصاف کےاعتبارسے کامل ہے ، قرآن وسنت میں ثابت شدہ اصول دین اورضوابط شریعہ اوراجماع امت میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہيں اوراللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والے کسی مسلمان کے ہاں اس میں کوئی مناقشہ ہی قابل قبول ہے ۔
اورمسلمان کے لیے احکام شریعت میں مرجع کتاب و سنت اورثقہ علماء کرام ( صحابہ کرام ) کی کتاب وسنت کی فہم ہے یہ نہیں کہ جو چيز اس کی اپنی عقل میں آۓ اورجسے وہ اچھا اوربہتر سمجھے تواس طرح ہرکوئي یہ کہے کہ میری عقل کے مطابق اس طرح ہے ۔۔۔
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی حکم شرعی میں کسی کوشبہ اوراشکال پیدا ہوجاۓ جس طرح سائل کوپیدا ہوا ہے تو ہم سائل کودعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہی رہے تا کہ ہم اس مسئلہ میں شریعت اسلامیہ اورعلماء کرام کی کلام کی طرف رجوع کریں :
بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ اورکہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نےاپنے آپ پر ظلم کرتے ہوۓ زنا کا ارتکاب کرلیا ہے اب میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس گناہ سے پاک صاف کردیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس بھیج دیا جب دوسرا دن ہوا تووہ پھر آکر کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کا ارتکاب کرلیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسری باربھی واپس بھیج دیا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قوم کےپاس پیغام بھیجا کہ کیا ماعز کی ذھنی حالت میں کچھ محسوس کرتے ہو اورتمہیں اس کی کوئي چيز بری لگتی ہے ؟ تواس کی قوم کے لوگ کہنے لگے اسے کچھ بھی نہيں اوروہ ذہنی طور پر ٹھیک ہے اورہم تویہ جانتے ہیں کہ وہ نیک اورصالح لوگوں میں سے ہے ۔
وہ تیسری بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ توپھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قوم سے پوچھا توانہوں نے بتایا کہ اس کا ذھنی توازن درست ہے اوروہ اخلاقی طور پر بھی صحیح ہے ۔
جب وہ چوتھی بار آۓ تونبی صلی اللہ نے حکم دیا کہ ایک گڑھا کھودو اوراسے رجم کردو تواسے رجم کردیا گیا ۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد غامدیہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے لھذا مجھے اس گناہ سے پاک صاف کریں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس بھیج دیا ۔
جب دوسرا دن ہوا تووہ عورت پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے واپس کس لیے بھیج رہےہیں شائد جس طرح آپ نے ماعز رضي اللہ تعالی عنہ کوبھیجا مجھے بھی اسی طرح بھیج رہے ہیں اللہ کی قسم میں توحاملہ ہوں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اب واپس چلی جاؤ اورجب بچہ پیدا ہوجاۓ توپھر آنا ، وہ بچے کی ولادت کے بعد کپڑے میں لپٹا ہوا بچہ اٹھاۓ ہوۓ آئي اورکہنے لگی میں نے اسے جنا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جاؤ اوراسے دودھ پلاؤ جب اس کے دودھ پینے کی مدت ختم ہوتو پھر آنا ، تووہ عورت دودھ چھڑانے کے بعد آئي توبچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا اورآ کرکہنے لگي اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نے دودھ چھوڑ دیا ہے اورروٹی کھانے لگ گيا ہے
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کوایک مسلمان کے سپرد کیا اورحکم دیا کہ اس عورت کے لیےسینہ تک ایک گڑھا کود کراسے رجم کردیا جاۓ تولوگوں نے اسے رجم کردیا خالد بن ولید رضي اللہ تعالی عنہ نے ایک پتھر اٹھا کراس عورت کومارا تووہ اس کے سر پر لگا جس کی وجہ سے خون کا فوارہ نکلا اورخالد رضي اللہ تعالی عنہ کے چہرہ پر پڑا جس کی بنا پر خالد رضي اللہ تعالی نے اس عورت کوبرابھلا کہا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سن لیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
خالد ( رضي اللہ تعالی عنہ ) ذرا ٹھر جاؤ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگراس طرح کی توبہ صاحب مکس یعنی ٹیکس لینے اور ظلم کرنے والا بھی کرے تواسے بھی معاف کردیا جاۓ ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارہ میں حکم دیا اورنماز جنازہ پڑھا کردفن کردیا گیا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1695 ) ۔
اس حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ زنا کے بچے کی پرورش کرنے کا سب سے زيادہ حقدار اس کی والدہ ہی ہے اس لیے کہ وہ ہی سب سے زیادہ قریب ہے اورپھر اسے اپنے بچے پر بڑی شفقت و پیار کرنے والا بنایا گيا ہے ، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا ہرایک نے مشاھدہ بھی کیا ہے اوراس کا انکار بھی کوئي نہیں کرسکتا ۔
لیکن یہ سب کچھ اس پر لازم نہیں اگر وہ اسے چھوڑ دیتی ہے توامیر المومنین اورمسلمانوں کے حکمران کوچاہیے کہ وہ اس بچے کے لیے دودھ پلانے اورپرورش کرنے والی کا انتظام کرے ۔
دوم : دوسری بات یہ ہے کہ : یہ اللہ تعالی کی رحمت اورکمال عدل ہے کہ اس نے زنا سے پیدا شدہ بچے پر والدین کے گناہ میں سے کچھ بھی نہیں ڈالا جس کی بنا پر اس پر مکمل آزادی کا حکم لگایا جاۓ گا اوراسے پرورش کا حق ملے گا حتی کہ وہ جوان ہوکر کمائي کرنے پر قادر ہوجاۓ ۔
سوم : تیسری بات یہ ہے کہ : یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں کہ شرعی اولاد کا خرچہ بھی والدہ کے ذمہ نہيں اورنہ ہی اس کی رضاعت اورپرورش اس پر لازم کی جاسکتی ہے ، رہا مسئلہ انفاق اورخرچہ کا تویہ والد کی ذمہ داری ہے ، اوررضاعت کے بارہ میں بھی خاوند کی مصلحت کومدنظر رکھا جاۓ گا یا پھروالدہ کی اوریا پھر بچے کی ان سب حالات میں اگر والدہ اپنے بچے کودودھ نہیں پلاتی یا پھر اس کی اجرت طلب کرتی ہے تواس میں اس کا حق ہے
لھذا والد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے دودھ پلانے کی اجرت دے کیونکہ یہ صرف اکیلے والد کےذمہ ہے اوراسے یہ کوئي حق نہیں پہنچتا کہ وہ والدہ کو مجبور کرے کہ وہ اپنے بچے کودودھ پلاۓ ۔
اوراللہ تعالی تواس طرح فرمارہا ہے :
اورمائيں اپنے بچوں کو دوبرس مکمل دودھ پلائيں ۔۔۔ یہ توفراخی کی حالت میں ہے ، اوراگر تنگی اور مشکل میں ہو تو تو اللہ تعالی نے کچھ اسطرح فرمایا :
اوراگر تم آپس مین کشمکش کا شکار ہوجاؤ تو اس کے کہنے سے کوئي اوردودھ پلاۓ گی
اوررہا مسئلہ پروش و حضانہ کا اس میں سب سےزيادہ حقدار تووالدہ ہی ہے کیونکہ اس کی اپنے بچے پر شفقت بہت زيادہ ہوتی ہے لیکن اگروہ اپنے حق کوساقط کردے تو وہ ساقط ہوجاۓ گا اورپرورش کا حق اس سےمنتقل ہوکر نانی وغیرہ پر آجاۓ گا اورکتب فقہ کی مدون کتابوں میں اس مسئلہ کے اختلاف کو ذکر کیا گیا ہے ۔
اوراگرشرعی بچے کے بارہ میں اس طرح ہے توپھرولد زنا تواس کے زیادہ لائق ہے کہ اس کی رضاعت وپرورش وغیرہ ماں کولازم نہ کی جاۓ لیکن اگر بچے کی ہلاکت کا خدشہ ہوتوپھر اورمسئلہ ہے ۔
بلکہ اس ان سب چیزوں کا ذمہ دار تو وہ حکمران ہے جسے اللہ تعالی نے کشادگی دی ہے یا پھر اس کے قائم مقام اسے پورا کرے گا ۔
تواس طرح یہ اشکال رفع ہوجاتا ہے ، واللہ اعلم ۔
بچہ بستروالے ( خاوند ) کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں :
مسلم شریف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( بچہ بستروالے ( یعنی خاوند ) کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس کی شرع کرتے ہوۓ لکھتے ہیں :
عاھر زانی کوکہتے ہیں ، زانی کے لیے پتھر ہیں کا معنی یہ ہے کہ : اسے ذلت ورسوائی ملے گی اوربچے میں اس کا کوئی حق نہیں ۔
اورعرب عادتا یہ کہتے تھے کہ : اس کے لیے پتھر ہیں ، اوراس سے وہ معنی یہ لیتے تھے کہ اس سواۓ ذلت ورسوائي کے اورکچھ نہیں ملے گا ۔
زنا سے بچے کا نسب ثابت نہيں ہوتا :
مندرجہ بالا حدیث ( بچہ بستروالے کا اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) کی بنا پر فقھاء کا کہنا ہے کہ ولد زنا کا نسب ثابت نہيں ہوتا ، یعنی زنا سے پیدا شدہ بچے کا نسب ثابت نہیں ہوگا اورنہ ہی اسے زانی سے ملحق کیا جاۓ گا ۔
ولدزنا کے عدم نسب میں فقھاء کرام کے اقوال :
اول :
حافظ ابن حزم الظاہری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( زانی کے لیے پتھرہیں ) کے الفاظ کہہ کر زانی سے اولاد کی نفی کردی ہے ، توزانی پر حد ہے اوربچے کاالحاق زانی کے ساتھ نہيں کیا جاۓ گا بلکہ اگر عورت بچہ جنتی ہے تواسے ماں کے ساتھ ہی ملحق کیا جاۓ گا مرد کی طرف نہیں ۔
اوراسی طرح وہ اپنی ماں کا اورماں اس کی وارث ہوگی اس لیے کہ لعان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ عورت سے ملحق کیا اورمرد سے اس کی نفی کردی ۔
دوم :
فقہ مالکیہ میں ہے کہ : زانی کا پانی فاسد ہے اس لیے بچہ اس کی طرف ملحق نہيں ہوگا ۔
سوم :
فقہ حنفی میں ہے کہ : ایک شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ اس نے آزاد عورت کے ساتھ زنا کیا اوریہ بچہ اس کے زنا سے پیدا شدہ ہے اورعورت بھی اس کی تصدیق کردے توپھر بھی نسب ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ثابت نہیں ہوگا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بچہ بستروالے ( خاوند ) کے لیے ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) تو یہاں پر فراش اوربستر توزانی کا ہے ہی نہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زانی کا حصہ تو صرف پتھر قرار دیے ہیں ، تواس حدیث میں مراد یہ ہے کہ نسب میں زانی کا کوئي حصہ نہيں ۔۔۔ ۔
زنا سے پیدا شدہ بچے کا الحاق زانیہ عورت سے ہوگا :
جسا کہ ہم اوپربیان کرچکے ہیں کہ ولدزنا کا الحاق زانی سے نہيں ہوسکتا بلکہ جس زانی عورت نے اسے جنا ہے اس کے ساتھ ہی اس کا الحاق ہوگا ، امام سرسخسی نے اپنی کتاب " المبسوط " میں ذکر کیا ہے کہ :
کسی مرد نے یہ اعتراف کیا کہ اس نے آزاد عورت سے زنا کیا اوریہ اس کے زنا کا بیٹا ہے اورعورت نے بھی اس کی تصدیق کردی تونسب اس سے ثابت نہیں ہوتا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بچہ بستر والے کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہيں ) اورزانی کا بستر نہیں ۔۔۔ اوراگر اسی دائی نے اس کی ولادت کی گواہی دے دی تواس کی وجہ سے بچے کا عورت کے ساتھ نسب ثابت ہوگا لیکن مرد سے نہیں ۔
عورت کے ساتھ نسب کا ثبوت توبچے کی ولادت ہے جو کہ دائی کی گواہی سے ظاہر ہوا ہے ، اس لیے کہ عورت سے بچے کوعلیحدہ نہیں کیا جا سکتا لھذا عورت سے بچے کا نسب ثابت ہوگیا ۔
زانی مرد کا زنیہ عورت سے شادی کرنا اوربچے کے نسب میں اس کی اثراندازي :
فقہ حنفیہ کی کتاب فتاوی ھندیہ میں میں ہے کہ :
اگرکسی نے عورت سے زنا کیا تووہ حاملہ ہوگئي پھر اس نے اسی عورت سے شادی کرلی تواس نے اگر توچھ یا چھ سے زیادہ ماہ کی مدت میں بچا جنا تواس سے بچے کا نسب ثابت ہو جاۓ گا ، اوراگر چھـ ماہ سے قبل پیدائش ہوجاۓ توپھرنسب ثابت نہیں ہوگا ۔
لیکن اگر وہ اس کا اعتراف کرے کہ وہ بچہ اس کا بیٹا ہے اوریہ نہ کہے کہ وہ بچہ زنا سے پیدا ہوا ہے ، لیکن اگر اس نے یہ کہا کہ وہ میرے زنا سے ہی پیدا ہوا ہے تواس طرح نہ تونسب ثابت ہوگا اورنہ ہی وہ اس کا وارث بنے گا ۔
اورحافظ ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے " المغنی " میں ذکرکیا ہے کہ :
جمہور علماء کے قول کے مطابق لعان کرنے والی عورت کے بچے کولعان کرنے والا جب اپنے خاندان میں ملانا چاہے تواسے اس کے ساتھ ہی محلق کیا جاۓ گا ، لیکن ولد زنا کوزانی سے ملحق نہیں جاۓ گا ، یعنی جب زانی ولد زنا کواپنے ساتھ ملانا چاہے تواسے زانی کے ساتھ ملحق نہیں کیا جاۓ گا ۔
اورراجح تویہی ہے کہ ولد زنا کا زانی سے نسب ثابت نہیں ہوسکتا چاہے وہ زانیہ عورت سے شادی کرلے اورشادی کے چھ ماہ سے قبل بچہ پیدا ہو یا پھر شادی نہ کرے اوربچہ پیدا ہوجاۓ تویہ نسب کے ثبوت کا باعث نہيں ، لیکن اگر وہ اسے اپنے خاندان میں ملانا چاہے اوریہ نہ کہے کہ وہ اس کے زنا کا بیٹا ہے تواس سے احکام دنیا میں اس کا نسب ثابت ہوجاۓ گا ۔
اوراسی طرح اگروہ زنا کی گئي عورت سے حمل کی حالت میں شادی کرے اورچھ ماہ سے قبل بچے کی پیدائش ہواورزانی اس پر خاموشی اختیار کرے یا پھر اس کا دعوی کرے لیکن یہ نہ کہے کہ وہ زنا سے ہے تواحکام دنیا میں اس کا نسب ثابت ہوگا ۔
دیکھیں کتاب " المفصل فی احکام المراۃ ( 9 / 381 ) ۔
واللہ اعلم .