سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

آپريش كى وجہ سے حيض كا غسل نہيں كر سكتى كيا تيمم كر لے ؟

سوال

ميرا آپريشن ہوا ہے اور مجھے ماہوارى آئى ہوئى ہے، ماہوارى كے بعد ميں نماز ادا كرنا چاہتى ہوں مجھے كيا كرنا ہوگا، كيا ميں تيمم كر لوں اور حيض سے تيمم كرنے كا طريقہ كيا ہے، اور كيا مجھے ہر نماز كے ليے تيمم كرنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حائضہ عورت كے ليے طہر آنے كے بعد نماز ادا كرنے كے ليے حيض سے غسل كرنا لازم ہے، اور اگر پانى استعمال كرنے كى قدرت نہ ركھنے كى بنا پر وہ غسل نہ كر سكے يعنى اگر وہ چارپائى سے نہ اٹھ سكے، يا پھر اسے پانى نقصان ديتا ہو تو وہ تيمم كر لے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب شريعت اسلاميہ كى اساس اور بنياد آسانى اور سہولت ہے تو اللہ سبحانہ وتعالى نے معذور لوگوں پر ان كى عبادات ميں ان كے عذر كے حساب سے تخفيف فرمائى ہے تا كہ وہ اللہ تعالى كى عبادت بغير كسى حرج اور مشقت كے ادا كر سكيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اس نے تم پر دين ميں كوئى تنگى نہيں ركھى .

اور ايك مقام پر كچھ اس طرح فرمايا:

اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ تنگى اور مشكل نہيں چاہتا .

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى كا تقوى اپنى استطاعت كے مطابق اختيار كرو .

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب ميں تمہيں كسى چيز كا حكم دوں تو تم اپنى استطاعت كے مطابق اس پر عمل كرو "

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا دين آسان ہے "

تو اگر مريض اور بيمار شخص پانى كے ساتھ طہارت يعنى بے وضوء ہونے كى صورت ميں پانى سے وضوء اور جنابت يا حيض وغيرہ كى بنا پر غسل كرنے كى استطاعت نہ ركھے اور وہ پانى استعمال كرنے سے عاجز ہو يا پھر اسے خدشہ ہو كہ پانى استعمال كرنے شفايابى ميں تاخير ہوگى يا زخم خراب ہو جائيگا يا بيمارى بڑھ جائيگى، تو وہ تيمم كر سكتا ہے.

تيمم كا طريقہ يہ ہے كہ:

اپنے دونوں ہاتھ پاكيزہ مٹى پر ايك بار مارے اور اپنى انگليوں سے چہرے پر مسح كرے، اور دونوں ہتھيليوں پر، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم مريض ہو يا مسافر يا تم ميں كوئى ايك قضائے حاجت كر كے آيا ہو، يا تم نے بيوى كے ساتھ ہم بسترى كى ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو تم پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو، اور اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح كرو .

اور پانى استعمال كرنے سے عاجز شخص بھى اس شخص كے حكم ميں ہى آتا ہے جسے پانى نہ ملے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

تو تم اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اپنى استطاعت كے مطابق اختيار كرو .

اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب ميں تمہيں كسى چيز كا حكم دوں تو تم اس پر اپنى استطاعت كے مطابق عمل كرو "

اور ان كا مزيد كہنا ہے كہ:

مريض كے ليے طہارت كى كئى ايك حالتيں ہيں:

1 - اگر اس كى بيمارى ہلكى اور كم ہو كہ پانى كے استعمال سے كوئى خدشہ نہ ہو نہ تو اس كے تلف ہونے كا اور نہ ہى بيمارى زيادہ ہونے كا خوف ہو، اور نہ ہى شفايابى ميں تاخير ہونے اور درد زيادہ ہونے كا، يا پھر وہ گرم پانى استعمال كرنے والوں ميں شامل ہوتا ہو كہ گرم پانى اسے كوئى نقصان اور ضرر نہيں ديتا تو اس شخص كےليے تيمم كرنا جائز نہيں كيونكہ اس كى اباحت ضرر كى نفى كے ليے ہے، اور اس كو كوئى ضرر اور نقصان نہيں؛ اور اس ليے بھى كہ اس كے پاس پانى ہے اس ليے اس كے ليے پانى استعمال كرنا واجب ہے.

2 - اور اگر اسے ايسى بيمارى ہو كہ پانى كے استعمال سے ہلاكت نفس كا خدشہ ہو، يا پھر كسى عضو كے تلف ہونے كا خدشہ، يا كوئى ايسى بيمارى پيدا ہونے كا جس سے نفس كى ہلاكت كا خدشہ ہو، يا كسى عضو كے تلف ہونے كا، يا كوئى منفعت اور فائدہ ختم ہونے كا تو ايسے شخص كے ليے تيمم كرنا جائز ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم اپنى جانوں كو ہلاكت ميں نہ ڈالو، يقينا اللہ تعالى تمہارے ساتھ بہت رحم كرنے والا ہے .

3 - اور اگر اسے ايسى بيمارى لاحق ہو جس كى بنا پر وہ حركت نہ كر سكے، اور نہ ہى كوئى ايسا شخص ہو جو اسے پانى پكڑا سكے تو اس كے ليے بھى تيمم كرنا جائز ہے.

4 - جس شخص كو زخم ہوں، يا پھر پھنسى اور پھوڑے، يا اس كى ہڈى ٹوٹى ہوئى ہو، يا ايسى بيمارى ہو جس كى بنا پر پانى استعمال كرنا مضر اور نقصان دہ ہو اور وہ شخص جنبى ہو جائے تو اس كے ليے بھى مندرجہ بالا دلائل كى بنا پر تيمم كرنا جائز ہے، اور اگر صحيح جسم كو دھونا ممكن ہو تو اس كے ايسا كرنا ضرورى ہے، اور باقى باقى كے ليے تيمم كر لے.

5 - اگر مريض كسى ايسى جگہ ہو جہاں نہ تو پانى ملے اور نہ ہى مٹى، اور نہ ہى كوئى ايسا شخص ہو جو يہ اشياء لا كر دے، تو يہ شخص اپنى حسب حالت ہى نماز ادا كريگا، اور اسے نماز ميں تاخير كرنے كا كوئى حق نہيں، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

تو تم اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اپنى استطاعت كے مطابق اختيار كرو . انتہى.

ماخوذ از: الفتاوى المتعلقۃ بالطب و احكام المرضى صفحہ ( 26 ).

دوم:

حيض سے تيمم كا طريقہ بھى حدث اصغر سے تيمم كے طريقہ سے كوئى مختلف نہيں، بلكہ وہى طريقہ ہے.

شيخ ابن باز كى كلام ميں تيمم كرنے كا طريقہ بيان ہو چكا ہے، اور اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 21074 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے اس كا مطالعہ كر ليں.

سوم:

تيمم وضوء كى طرح ہى ہے اور وہ پليدى كو ختم كر ديتا ہے، راجح قول يہى ہے، تو اس طرح اس سے ايك نماز سے زائد نمازيں ادا كى جا سكتى ہيں، اور آپ كے ليے ہر نماز كے وقت تيمم كرنا لازم نہيں، اگر آپ كا تيمم ٹوٹا نہ ہو.

مثلا اگر آپ نے ظہر كى نماز كے ليے تيمم كيا اور آپ كا وضوء نہيں ٹوٹا تو آپ كے ليے اسى تيمم كے ساتھ عصر كى نماز ادا كرنى جائز ہے، اور اسى طرح باقى نمازوں ميں بھى.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر انسان نے نفلى نماز كے ليے تيمم كيا ہو تو كيا وہ اس تيمم سے فرضى نماز ادا كر سكتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" تيمم حدث اور پليدى كو ختم كر ديتا ہے، تو اس وقت اگر اس نے نفلى نماز كے ليے تيمم كيا ہو تو اس سے فرضى نماز ادا كر سكتا ہے، جيسا كہ اگر كسى نے نفلى نماز كے ليے وضوء كيا ہو تو اس كے ليے اسى وضوء كے ساتھ فرضى نماز ادا كرنا جائز ہے، اور اس كے ليے اگر اس كا وضوء اور تيمم نہيں ٹوٹا تو وقت نكل جانے پر دوبارہ تيمم كرنا واجب نہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 / 240 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات