الحمد للہ.
اول:
وائٹ گولڈ يہ معروف زرد رنگ كے سونے سے بنتا ہے، ليكن اس ميں كچھ دوسرے مواد مثلا پلاڈيم ملايا جاتا ہے تا كہ اس كا رنگ سفيد ہو سكے، تجربہ كار لوگ يہى كہتے ہيں جس كى تفصيل سوال نمبر ( 68039 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.
اور اگر واقعتا معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر مرد كے ليے يہ پہننا جائز نہيں، چاہے وہ تھوڑا سا ہى كيوں نہ ہو؛ كيونكہ مسلم كى درج ذيل روايت ميں آيا ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كے ہاتھ ميں سونے كى انگوٹھى ديكھى تو اسے اتار كر پھينك ديا، اور فرمايا:
" تم ميں سے ايك شخص آنگ كا انگارہ اٹھا كر اپنے ہاتھ ميں ركھ ليتا ہے! "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وہاں سے چلے جانے كے بعد اس شخص كو كہا گيا: اپنى انگوٹھى اٹھا كر اس سے فائدہ حاصل كر لو، تو اس نے جواب ديا: اللہ كى قسم ميں اس انگوٹھى كو كبھى نہيں اٹھاؤنگا جسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اتار كر پھينك ديا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2090 ).
ابو داود اور نسائى اور ابن ماجہ نے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ريشم لے كر اپنے دائيں ہاتھ ميں پكڑى اور سونا لے كر اسے اپنے بائيں ہاتھ ميں پكڑا اور پھر فرمايا:
بلاشبہ يہ دونوں ميرى امت كے مردوں پر حرام ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4057 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5144 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3595 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:
" اور سونے كى انگوٹھى مرد كے ليے بالاجماع حرام ہے، اور اسى طرح اگر كچھ كا كچھ حصہ سونے اور كچھ حصہ چاندى كا ہو تو بھى حرام ہے " انتہى.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
بعض لوگوں ميں خاصر كر مردوں ميں وائٹ گولڈ نامى سونے كا استعمال عام ہو چكا ہے، اور اس سے گھڑياں، انگھوٹھياں اور پين و قلميں وغيرہ بنائى جاتى ہيں، اور فروخت كرنے والوں، اور زيورات بنانے والوں سے دريافت كرنے كے بعد پتہ چلا ہے كہ:
معروف زرد رنگ كا سونا ہى وائٹ گولڈ يا دوسرے رنگ كا سونا ہے، جس ميں پانچ يا دس فيصد كى مقدار سے دوسرے مواد شامل كيے جاتے ہيں جو اسے زرد سے سفيد يا دوسرے رنگوں ميں بدل ديتا ہے، جس سے يہ دوسرى معدنيات اور دھاتوں سے مشابہ بن جاتا ہے، اور ان آخرى ايام ميں اس كا استعمال بہت زيادہ بڑھ چكا ہے، اور اس كا حكم بہت سارے لوگوں پر خلط ملط ہو گيا ہے، اس كے متعلق وضاحت فرمائيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" اگر تو واقعى ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں بيان كيا گيا ہے، تو پھر سونے كو كسى دوسرى چيز كے ساتھ ملانے سے سونے كى جنس سے ہى اسے فروخت كرنے ميں كم اور زيادہ كے ساتھ فروخت كرنے كى حرمت كے احكام سے خارج نہيں ہو جاتا، اور مجلس عقد ميں اپنے قبضہ ميں كرنے كے وجوب، ميں فرق نہيں آتا، چاہے وہ اسى جنس سے فروخت كيا گيا ہو يا پھر چاندى يا نقدى روپوں ميں، اور مردوں كے ليے پہننے كى حرمت سے بھى خارج نہيں ہوتا، اور اسى طرح اس كے برتن بنانے بھى حرام ہى رہينگے.
اور اسے وائٹ گولڈ كا نام دے دينا اسے ان احكام سے خارج نہيں كر ديگا " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃالدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 60 )
دوم:
الماس وغيرہ قيمتى پتھروں پر مشتمل گھڑى پہننے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس ميں اصل اباحت ہے، اور اس كى ممانعت ميں كوئى دليل وارد نہيں.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
الماس جڑے ہوئے، اور سونے كى آميزش والى گھڑياں پہننے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" ہمارے علم ميں تو مرد كے ليے الماس پہننے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ جب صرف خالصتا الماس ہو، اور اس ميں سونے اور چاندى كى آميزش نہ ہو " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 24 / 76 ).
حاصل يہ ہوا كہ اگر گھڑى ميں سونا نہ ہو تو پہننى جائز ہے، اور اگر اس ميں سونا ہو تو پہننى جائز نہيں.
واللہ اعلم .