جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خاوند مردوں سے مصافحہ كرنے كا كہتا ہے اور اگر نہ كرے تو طلاق كى دھمكى ديتا ہے

88099

تاریخ اشاعت : 19-12-2011

مشاہدات : 4746

سوال

خاوند اپنى بيوى كو كہتا ہے كہ وہ مردوں سے مصافحہ كرے، وہ اس پر شدت سے اصرار كرتا ہے، اور معاملہ طلاق تك پہنچ سكتا ہے، ان كى ايك بچى بھى ہے، ليكن بيوى ايسا نہيں كرنا چاہتى، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ بيوى كو كيا كرنا چاہيے اور آپ اسے كيا نصيحت كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مرد كے ليے كسى اجنبى عورت سے مصافحہ كرنا جائز نہيں، اور عورت كو ايسے نہيں كرنے دينا چاہيے.

اجنبى عورت سے مصافحہ كرنے كى حرمت پر درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" اللہ كى قسم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاتھ نے بيعت ميں كبھى كسى عورت كے ہاتھ كو نہيں چھوا، عورتيں زبانى طور پر بيعت كيا كرتى اور كہا كرتى تھيں: ميں نے اس بات پر بيعت كى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4891 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1866 ).

غور كريں كہ سب انسانوں سے اعلى و افضل اور معصوم البشر اور اولاد آدم كے سردار نبى صلى اللہ عليہ وسلم عورتوں كو چھوا نہيں كرتے تھے، حالانكہ بيعت ميں اصل يہى ہے كہ ہاتھ كے ساتھ ہو، ليكن آپ عورتوں سے زبانى بيعت ليا كرتے تھے، تو پھر آپ كے علاوہ باقى دوسرے مردوں كے ساتھ كيا ہو گا ؟!

اميمہ بنت رقيقہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں عورتوں ميں مصافحہ نہيں كيا كرتا "

سنن نسائى حديث نمبر ( 4181 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2874 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2513 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے كسى ايك كے ليے يہ بہتر ہے كہ غير محرم عورت كو چھونے كى بجائے اس كے سر ميں لوہے كى سوئى مارى جائے "

اسے طبرانى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5045 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ احاديث صريحا حرام كر رہى ہيں.

الخرشى رحمہ اللہ نے شرح مختصر خليل ميں بيان كرتے ہيں كہ:

" غير محرم عورت سے مصافحہ كرنا جائز نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: شرح مختصر خليل ( 1 / 275 ).

اور حاشيۃ العدوى ميں درج ہے:

" كسى بھى مرد كے ليے جائز نہيں كہ كسى اجنبى عورت سے مصافحہ كرے، چاہے وہ بوڑھى عورت ہى كيوں ہو " انتہى

ديكھيں: حاشيۃ العدوى على شرح الرسالۃ ( 2 / 474 ).

المتجالۃ: سن رسيدہ عورت جسے شہوت نہ ہو كو كہتے ہيں.

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" اجنبى عورت كو چھونے كے عدم جواز ميں فقھاء كرام ميں كوئى اختلاف نہيں، اور اسى طرح اس سے مصافح كرنا بھى جائز نہيں، چاہے شہوت كا خدشہ نہ بھى ہو.....

يہ تو اس صورت ميں ہے جب وہ جوان اور اجنبى اور شہوت ركھنے والى ہو...

مالكيہ اور شافعيہ كہتے ہيں كہ اس ميں نوجوان يا بوڑھى كا كوئى فرق نہيں سب حرام ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 296 ).

دوم:

اگر خاوند اپنى بيوى كو اجنبى مردوں سے مصافحہ كرنے كا حكم دے تو بيوى پر خاوند كى اطاعت كرنا واجب نہيں بلكہ اس كے ليے ايسا كرنا ہى جائز نہيں ہے، كيونكہ اللہ خالق الملك كى نافرمانى ميں كسى مخلوق كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں ہے.

اس خاوند كو اللہ كا ڈر اور خوف كرنا چاہيے، اور وہ اللہ كے عذاب اور المناك سزا سے بچ كر رہے، كيونكہ اس كا يہ حكم اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كے مخالف ہے، اور اس كا اپنى بيوى پر تسلط اور كنٹرول اور اسے طلاق كى دھمكى دينا سرا سر ظلم و زيادتى ہے.

حالانكہ اس كے ليے بہتر تو يہى تھا كہ وہ بيوى سے راضى ہو كہ اللہ كى اطاعت ميں ہے، اور اسے اس سلسلہ ميں بيوى كى معاونت كرنى چاہيے تھى.

سوم:

اگر خاوند اپنے موقف پر اصرار كرے اور اسے طلاق كى دھمكى دے اور اس پر عزم كا اظہار بھى كرے تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ عورت كے ليے جائز ہے كہ وہ مجبورا پردے كے پيچھے سے مصافحہ كر لے، تا كہ دو برے كاموں ميں سے چھوٹى برائى پر عمل كرے. واللہ اعلم، تا كہ بڑے فساد سے بچ سكے.

اسے چاہيے كہ وہ مردوں كے سامنے كم ہى آئے تا كہ نہ ملاقات ہو اور نہ ہاتھ ملانا پڑے، اور اس كے ساتھ ساتھ اپنے خاوند كو نصيحت بھى كرے اور اس مسئلہ ميں جو حق ہے وہ اس كے سامنے ركھے تا كہ وہ اپنى رائے كو تبديل كر سكے.

ليكن اگر خاوند اس سے مطئمن نہيں ہوتا، اور پردہ كے بغير ہى ہاتھ ملانے پر اصرار كرتا ہے تو پھر وہ اس كى اطاعت نہ كرے اور اسے صبر كر كے اجروثواب كى نيت ركھنى چاہيے اور اگر طلاق ہو جائے، خاص كر اگر يہ پہلى طلاق ہو تو ہو سكتا ہے خاوند طلاق كے بعد صحيح راہ پر آ جائے، اور يقين كر لے كہ وہ اپنے ہاتھوں سے ہى اپنا گھر تباہ كرنے پر تلا ہوا ہے اور وہ بھى ايك حرام كام كى بنا پر.

اس كے ساتھ ساتھ آپ كو چاہيے كہ اس سلسلہ ميں اپنى قوم كے عقل و دانش ركھنے والے اہل اصلاح قسم كے افراد كو لے كر اس اختلاف كو حل كريں، اور اللہ كا تقوى اور ڈر دلا كر اپنے خاوند كو اس كے موقف سے بدلنے كى كوشش كريں.

بيوى كو يقين كر لينا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے ضرور كوئى نہ كوئى راہ نكالےگا، كيونكہ اللہ تعالى اپنى اطاعت كرنے والوں كو ضائع نہيں فرماتے، اور اپنے وليوں كا دفاع كرتا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى سے دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب