الحمد للہ.
اول:
سب سے پہلے تو ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو راہ حق دکھائی، اور آپ کو یہ علم ہے کہ سود حرام ہے، اور اسی طرح سودی جگہوں پر کام کرنا بھی حرام ہے، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو مزید علم و ہدایت عطا فرمائے، اور آپ کے لیے خیر جہاں بھی ہو آسانی سے مہیا فرما دے۔
دوم:
سودی کمپنیوں یا بینکوں میں کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ان میں کام کرنے سے گناہ اور جارحیت کے کاموں میں تعاون ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، جبکہ گناہ اور جارحیت پر مبنی کاموں پر باہمی تعاون نہ کرو۔ تقوی الہی اپناؤ؛ یقیناً اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدۃ: 2]
ایسے ہی صحیح مسلم: (1598) کی روایت کردہ حدیث میں سودی معاملے کی محض تحریر اور گواہی کی شکل میں اعانت پر بھی لعنت کی گئی ہے چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا کہ: یہ سب گناہ میں یکساں ہیں۔)
اس بنا پر: ایسے بینکوں میں ٹریننگ لینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس انٹرن شپ میں سودی معاملات کرنے ہوں گے اور سودی لین دین میں معاونت ہو گی، لیکن اگر طالب علم مجبور ہو، اور اسے اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہ ملے تو پھر وہ اس انٹرن شپ میں حاضر ہو سکتا ہے بشرطیکہ سود سے نفرت کرے، اور اس سے بچنے کی تلقین کرے، نیز کسی بھی سودی لین دین میں معاونت نہ کرے، بلکہ سودی لین دین کرنے والوں کو اس کی حرمت بیان کرے، نیز سودی لین دین کیسے ہوتے ہیں؟ ان کا طریقہ سمجھے تا کہ اسے سودی معاملات کے بارے میں مکمل بصیرت حاصل ہو۔
انٹرن شپ کے بعد ملنے والا معاوضہ وصول کر لے، اور لے کر فقرا و مساکین میں تقسیم کر دے؛ کیونکہ یہ پاکیزہ مال نہیں ہے اسے حرام کام کے عوض میں دیا گیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (81915 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم