الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو توبہ اور ہدايت كى توفيق نصيب فرمائى، اور آپ سے برائى كو دور كر ديا، اللہ سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو مزيد ثابت قدمى عطا فرمائے.
دوم:
آپ كو چاہيے كہ اپنے اور بيوى كے خاندان والوں سے اچھى اور اصلاح پسند قسم كے افراد اختيار كريں جو آپ كى صلح كرائيں، اور آپ كى بيوى طلاق كے مطالبہ سے دستبردار ہونے پر راضى كريں، كيونكہ اس كے گھر اور بيٹيوں كى مصلحت اسى ميں ہے.
اور آپ كو اسے ركھنے اور اس كو طلاق دينے كے مطالبہ كو رد كرنے كا حق حاصل ہے، اور آپ اپنى اس رغبت كا اعلان كر ديں كہ آپس ميں زندگى بسر كرنا چاہتے ہيں.
اور رہى بيوى اسے نہ تو طلاق دينے كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے اور نہ ہى خلع كا، ليكن اگر اس كا كوئى سبب ہو تو ايسا كر سكتى ہے، مثلا نقصان اور ضرر ہونے كا انديشہ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
رہا مسئلہ كہ قاضى طلاق يا خلع كا فيصلہ كرتا ہے تو يہ اس اعتبار سے ہو گا جو بيوى عذر پيش كرتى ہے.
سوم:
طلاق ہو جانے كى صورت ميں سات برس تك اولاد ماں كے پاس رہتى ہے، جب تك ماں آگے شادى نہ كرے؛ كيونكہ مسند احمد اور ابوداود كى حديث ميں آيا ہے:
عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے اس بيٹے كے ليے ميرا پيٹ اس كے ليے رہنے كى جگہ تھى، اور ميرى چھاتى اس كى خوراك كا باعث تھى، اور ميرى گود اس كى حفاظت كى جگہ تھى، اور اس كے باپ نے مجھے طلاق دے دى ہے، اور اب اس كو مجھ سے چھيننا چاہتا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے فرمايا:
" تم جب تك نكاح نہيں كرتى اس كى زيادہ حقدار ہو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2276 ) مسند احمد حديث نمبر ( 6707 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 1968 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
جب بچہ سات برس كا ہو جائے تو اسے والدين ميں سے كسى كے ساتھ رہنے كا اختيار ديا جائيگا، اور وہ جسے زيادہ پسند كرتا ہے اسے اختيار كر كے اس كے ساتھ رہے گا، ليكن بچى سات برس كى ہو جائے تو اس ميں علماء كا اختلاف ہے:
امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اسے بھى اختيار ديا جائيگا.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ماں زيادہ حقدار ہے حتى كہ بچى كى شادى ہو جائے يا حيض آ جائے "
امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى ماں زيادہ حقدار ہے، حتى كہ بچى كى شادى ہو جائے اور خاوند دخول كر لے "
اور امام احمد كہتے ہيں:
" اس بچى كا باپ زيادہ حقدار ہے؛ كيونكہ باپ اس كى حفاظت زيادہ كر سكتا ہے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 314 - 317 ).
اس اختلاف كو مدنظر ركھتے ہوئے اس مسئلہ ميں سنت نبويہ ميں كوئى ايسى نص نہيں جو اس ميں فيصلہ كن ہو، اس ليے اس ميں مرجع شرعى قاضى ہو گا، اور وہى يہ تحديد كريگا كہ بچى سات برس كى ہو جائے تو وہ كس كے ساتھ رہے گى.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے اور سب مسلمانوں كے حالات كو سدھارے.
واللہ اعلم .