الحمد للہ.
جب انسان كو كوئى كام پيش آ جائے تو اس كے ليے استخارہ كرنا مشروع ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
جب تم ميں سے كسى شخص كو كوئى كام پڑے تو وہ دو ركعت نفل نماز ادا كر كے يہ دعا پڑھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ.....
اے اللہ ميں تيرے علم كے ساتھ استخارہ كرتا ہوں، اور تيرى قدرت كے ساتھ طاقت حاصل كرتا ہوں، اور تيرے فضل عظيم سے سوال كرتا ہوں .... آخر تك
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1166 ).
چنانچہ جس كے ليے كوئى رشتہ آئے تو اس كے ليے استخارہ كرنا مشروع ہے كہ آيا وہ اس رشتہ كو قبول كرے يا نہ كرے، رہا مسئلہ نماز حاجت كا جو درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دن يا رات كے وقت دو دو ركعت كر كے بارہ ركعات ادا كرو، اور جب نماز كے آخر ميں تشھد پڑھو تو پھر اس كے بعد اللہ تعالى كى حمد و ثنا كر كے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو اور پھر سجدہ كى حالت ميں سورۃ الفاتحہ سات بار اور آيۃ الكرسى سات بار، اور لا الہ الا اللہ لا شريك لك لہ الملك و الہ الحمد و ھو على كل شيئ قدير دس بار پڑھو اور پھر اللھم انى اسئلك بمعاقد العز من عرشك و منتھى الرحمۃ من كتابك و اسمك الاعظم وجدك الاعلى و كلماتك التامۃ پڑھو.
اور پھر اس كے بعد اپنى ضرورت اور حاجت طلب كروا ور پھر سجدہ سے سر اٹھاؤ پھر دائيں اور بائيں سلام پھير دو، اور تم يہ نماز بےوقوفوں كو مت سكھاؤ كيونكہ وہ دعاء كريں گے تو ان كى دعا قبول ہو جائيگى "
يہ حديث صحيح نہيں اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت ملتا ہے، يہ حديث موضوع اور من گھڑت ہے، جيسا كہ علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 418 ) ميں كہا ہے.
ـ كوئى ايسى دعا نہيں ہے جسے شادى كى آسانى كى دعا كہا جاتا ہو، بلكہ انسان اپنے پروردگار اللہ عزوجل سے اس كا فضل طلب كرے، اور جہاں بھى خير و بھلائى ہو اس ميں آسانى مانگنى چاہيے.
ـ گويا اور گانے بجانے كا كام كرنا حرام ہے، اور اس سے حاصل ہونے والى تنخواہ اور كمائى بھى حرام مال ہوگى، كيونكہ شريعت اسلاميہ نے گانے بجانے كے آلات استعمال كرنا حرام كيے ہيں.
مزيد آپ سوال نمبر ( 5000 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر اس نوجوان كو نصيحت كى جانى چاہيے كہ وہ اس كام كو چھوڑ دے، اگر تو وہ توبہ كرتے ہوئے اس كام كو چھوڑ كر كسى مباح كام كى طرف آتا ہے تو پھر اس سے شادى كرنے ميں كوئى مانع نہيں.
ليكن اگر وہ اسى كام ميں رہے اور اسے ترك نہ كرے تو پھر اس نوجوان ميں كوئى خير نہيں؛ كيونكہ اس كا مال اور كمائى حرام ہے، اور پھر وہ اپنے اس حرام كام پر بھى مصر ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد عطا فرمائے.
واللہ اعلم .