سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کس وقت اللہ کی محبت عذاب الہی سے نجات کا باعث بن سکتی ہے؟

سوال

کیا جو بھی  اللہ سے محبت کرتا ہے وہ جہنم میں جائے گا؟ کیونکہ بہت سے یہودی اور عیسائی ایسے ہیں جو اللہ سے محبت کرتے ہیں، اسی طرح مسلمان فاسق بھی اللہ سے محبت کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ اسے اللہ سے نفرت ہے، تو کیا آپ اس مسئلے کی وضاحت کر سکتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

"محبت کی چار قسمیں ہیں، ان چاروں کے مابین فرق کرنا انتہائی ضروری ہے؛ کیونکہ جس نے ان میں فرق نہیں کیا تو وہ گمراہ ہو گیا:

پہلی قسم: اللہ تعالی  سے محبت، یہ تنہا اللہ کے عذاب بچانے یا ثواب حاصل کرنے کیلیے کافی نہیں ہے؛ کیونکہ مشرکین، صلیبی اور یہودیوں سمیت تمام کافر  بھی اللہ سے محبت کرتے ہیں۔

دوسری قسم: ہر اس چیز سے محبت جو اللہ کو محبوب ہو، محبت کی یہ قسم انسان کو کفر سے نکال کر اسلام میں داخل کرتی ہے، اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین شخصیت بھی وہی ہے جو  محبت کی اس نوعیت میں پختہ ہے۔

تیسری قسم: یعنی اللہ کیلیے محبت، یہ قسم سابقہ قسم کے لوازم میں سے ہے، چنانچہ اس وقت تک انسان کی اللہ کی محبوب چیزوں سے محبت صحیح نہیں ہو سکتی جب تک وہ اللہ کیلیے محبت نہ کرے۔

چوتھی قسم: اللہ کے ساتھ محبت، یہ شرکیہ محبت ہے، چنانچہ جو شخص بھی کسی کو اللہ تعالی کے ساتھ محبوب سمجھتا ہے، اللہ کیلیے محبوب نہیں سمجھتا  تو اس شخص نے اسے اللہ کا شریک بنا دیا ہے، مشرکین میں یہی محبت پائی جاتی ہے۔

یہاں محبت کی پانچویں قسم بھی ہے لیکن اس کا ہماری گفتگو سے کوئی تعلق نہیں  اور وہ یہ ہے کہ انسان فطری طور پر کسی چیز کے بارے میں قلبی رجحان رکھے ، مثلاً: پیاسا شخص پانی کی محبت رکھتا ہے، بھوکا شخص کھانا پسند کرتا ہے، ایسے نیند، اہلیہ، اولاد وغیرہ کی محبت ؛ تو ان چیزوں کی محبت بھی اگر ذکرِ الہی سے غافل نہ کرے تو مذموم نہیں ہے، لیکن اگر اللہ کی یاد سے غافل کر دے تو ان چیزوں کی محبت بھی مذموم ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہیں تمہارے اموال اور اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ [المنافقون: 9]

ایک اور جگہ فرمایا:
رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ
ترجمہ: [مومن افراد] ایسے مرد ہیں جنہیں ان کی تجارت اور خرید و فروخت بھی ذکرِ الہی سے غافل نہیں کرتی۔[النور: 37] "
الجواب الكافي (  1/134)

ابن قیم رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"اللہ کیلیے محبت اور اللہ کے ساتھ محبت  میں فرق انتہائی اہم اور ضروری ہے، ہر شخص کو یہ فرق معلوم ہونا چاہیے بلکہ ان دونوں میں فرق لازمی امر ہے؛ کیونکہ اللہ کیلیے محبت در حقیقت ایمان کی تکمیل کا باعث ہے، جبکہ اللہ کے ساتھ محبت عین شرک ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ محبت کرنے والا اپنی محبت میں اللہ کی چاہت کے تابع ہوتا ہے، چنانچہ جب اللہ کی محبت دل میں جا گزیں ہو جائے تو پھر اللہ کیلیے محبت پیدا ہوتی ہے، اور پھر انسان انہی چیزوں سے محبت کرنے لگتا ہے  جو اللہ تعالی کے ہاں بھی محبوب ہوتی ہیں، پھر جب انسان اللہ کی محبوب چیزوں سے محبت کرنے لگے تو  یہی وہ محبت ہے جو اللہ کیلیے ہوتی ہے، مثلاً: اللہ کے رسولوں سے محبت کرے، انبیائے کرام  سے، فرشتوں اور اللہ کے ولیوں سے محبت کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی ان سب سے محبت کرتا ہے اس کے بر خلاف جو ان سے بغض رکھے تو اللہ تعالی بھی ان لوگوں بغض رکھتا ہے۔

اللہ کیلیے محبت  اور بغض کی علامت یہ ہے کہ انسان کسی اللہ کے ناپسندیدہ شخص کو اپنا محبوب نہیں بناتا، یعنی اگر انسان کو کسی ایسے شخص کی جانب سے کوئی فائدہ پہنچے جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہے ، یا وہ اِس کی کوئی ضرورت پوری کر دے  تو اس فائدے یا ضرورت پوری ہونے کی وجہ سے وہ شخص اِس کو اپنا محبوب نہیں بناتا۔ اسی طرح اگر اللہ کے کسی محبوب سے نفرت نہیں کرتا ، یعنی اگر کسی اللہ کے محبوب بندے کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف پہنچے یا ناگوار اقدام کا سامنا کرنا پڑے تو وہ اس غلطی کی بنا پر اس سے نفرت نہیں کرتا، چاہے اس کی جانب سے پہنچنے والی تکلیف غلطی کی بنا پر ہو یا تعمیل حکم الہی میں عمداً ہو، یا  کسی تاویل اور اجتہاد کی بنا پر  ہو یا [شرعی حکم سے]بغاوت  کی بنا پر۔

سارے کا سارا دین چار اصولوں پر قائم ہے: محبت اور نفرت، پھر ان پر مرتب ہونے والے اثرات عمل اور عدم عمل، چنانچہ اگر کسی شخص کی زندگی میں محبت، نفرت، عمل اور عدم عمل ہر چیز اللہ کیلیے ہو تو پھر اس کا ایمان کامل ہے؛ کیونکہ وہ کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو اللہ کیلیے ، اور اگر کسی سے نفرت بھی رکھے تو اللہ کیلیے، اگر کوئی کام کرے تو اللہ کیلیے اور اگر کوئی کام نہیں کرتا تو وہ بھی اللہ کیلیے نہیں کرتا؛ لہذا اگر کوئی شخص ان چار چیزوں میں سے کسی بھی ایک چیز میں کمی کا شکار ہوتا ہے تو اسی مقدار میں اس کا ایمان اور دینداری کم ہو جاتی ہے۔

لیکن اللہ کے ساتھ کسی کو اپنا محبوب بنانے کا معاملہ الگ ہے، اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم عقیدہ توحید پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ قسم شرک ہے، جبکہ دوسری قسم  کامل اخلاص اور کامل حب الہی سے متصادم ہے، اس کی وجہ سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔

پہلی قسم سے مشرکین کی اپنے بتوں اور شریکوں سے محبت مراد ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ
ترجمہ: اور کچھ ایسے بھی ہیں جو غیر اللہ کو شریک بناتے ہیں اور ان سے اللہ کی طرح محبت کرتے ہیں [البقرة: 165]  تو یہ مشرکین اپنے بتوں ، تھانوں  اور معبودوں  سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ تعالی سے کرتے ہیں، تو یہ محبت در حقیقت انہیں اپنا معبود ماننے کی محبت ہے، غیر اللہ سے اس قسم کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے خوف کھاتے ہیں اور انہی سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں، ان کی بندگی کرتے ہیں اور دعائیں بھی انہی سے مانگتے ہیں؛ تو یہی محبت خالص شرک ہے ، اور شرک کو اللہ تعالی معاف نہیں فرمائے گا، مزید بر آں اس وقت ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس قسم کے معبودانِ باطلہ سے دشمنی رکھی جائے، ان سے سخت نفرت کی جائے، ایسے مشرکوں سے بغض رکھیں اور ان کے خلاف بر سر پیکار  رہیں، انہی امور کیلیے اللہ تعالی نے تمام رسولوں کو مبعوث فرمایا اپنی تمام کتابیں اسی مقصد کیلیے نازل فرمائیں، شرکیہ محبت کرنے والوں کیلیے جہنم پیدا کی اور شرکیہ محبت کے خلاف رضائے الہی کی خاطر بر سر پیکار رہنے والوں کیلیے  جنت پیدا فرمائی؛ لہذا اگر کوئی بھی شخص عرش الہی کے نیچے سے لیکر زمین کی تہوں تک کسی بھی چیز کی عبادت کرتا ہے تو اس شخص نے غیر اللہ کو اپنا معبود  بنا لیا ہے ، اور اللہ کے ساتھ شرک میں ملوث ہو چکا ہے، چاہے وہ کتنی ہی بڑی ہستی اور مقام  والی شخصیت ہو ، ایسے کسی بھی معبود سے انتہائی ضرورت کے وقت بھی اظہار لاتعلقی ضروری ہے ۔

دوسری قسم:  اس سے وہ محبت مراد ہے جو اللہ تعالی نے انسانوں کے دلوں میں فطری طور پر پیدا کی ہے مثلاً: بیوی، بچے، سونا ، چاندی، نسلی گھوڑے، پالتو مویشی اور فصلوں  وغیرہ کی محبت تو انسان ان سے شہوانی محبت رکھتا ہے بالکل اسی طرح جیسے بھوکا شخص کھانے  کا اور پیاسا شخص پانی کا دیوانہ ہوتا ہے، اس دوسری قسم کی آگے پھر تین اقسام ہیں:

  1. اگر ان چیزوں سے محبت اللہ کیلیے کرے وہ اس طرح کے ان چیزوں کو قرب الہی کیلیے استعمال کرے، رضائے الہی کا متلاشی ہو، انہیں اطاعت کے کاموں میں صرف کرے تو اس پر اسے ثواب ملے گا اور یہ  محبت اللہ کیلیے محبت میں شامل ہو گی کہ انسان ان کے ذریعے اللہ تعالی تک پہنچنا چاہتا ہے اور اسی سلسلے میں ان سے محبت کرتا ہے۔ یہی صورت حال اکمل الخلق صلی اللہ علیہ و سلم کی تھی کہ آپ کو دنیا میں سے بیویاں اور خوشبو پسند تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ان چیزوں سے محبت در حقیقت اللہ تعالی کی محبت کیلیے معاون تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا  اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خصوصی خیال بھی رکھا۔
  2. اور اگر ان چیزوں سے محبت شوق اور قلبی میلان کی وجہ سے ہو ، اور ان کی محبت کو اللہ کی محبت اور رضا پر مقدم نہ کرے، وہ صرف اپنے فطری میلان  کی وجہ سے ان چیزوں کو استعمال کر رہا ہو تو یہ  مباح چیزوں میں شامل ہو گا، اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، تاہم اس محبت سے   حب الہی میں نقص آئے  گا ۔
  3. اگر یہی چیزیں اس شخص کی زندگی کا مطلوب و مقصود بن جائیں، انسان کی ساری کی ساری تگ و دو انہی چیزوں کے حصول کیلیے ہو ، ان کی محبت کو اللہ کی محبت پر فوقیت دے تو وہ شخص اپنے آپ پر ظلم ڈھا رہا ہے اور خواہش نفس کا پیروکار ہے۔

پہلی نوعیت:  سے انتہائی اعلی درجے کے لوگ متصف ہو تے ہیں۔

دوسری نوعیت:  سے دوسرے اور درمیانی درجے کے لوگ متصف ہوتے ہیں۔

تیسری نوعیت: سے ظالم لوگ متصف ہوتے ہیں"

"الروح" از: ابن قیم( 1/254)

واللہ اعلم

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد