الحمد للہ.
ہم نے یہ سوال فضیلۃ الشیخ عبدالرحمان البراک حفظہ اللہ کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے مندرجہ ذیل جواب دیا :
اس اللہ تعالی کی تعریف ہے جو کہ سب سے بڑا اور بلند وبالا ہے اللہ تعالی عظیم اور پاک ہے اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ تعالی ہی بڑا ہے اور ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمآئے ۔ اما بعد !
جس پر ایمان لانا واجب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بلند واعلی ہے اور عرش پر مستوی ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب میں اپنے متعلق بھی یہی بتایا اور اس کی خبر دی ہے تو وہ سبحانہ وتعالی ہر چیز کے اوپر ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے ( تو ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں )
اور اسی طرح یہ ایمان لانا واجب ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز سے بڑا ہے اور وہ عظیم ہے جس سے بڑا کوئی نہیں اس کی عظمت اور قدرت کا کمال ہی ہے کہ وہ قیامت کے دن آسمان وزمین کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے گا ۔
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے :
( اور ان لوگوں نے اللہ تعالی کی قدر اس طرح نہیں کی جس طرح کرنی چاہۓ تھی قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئےہوں گے وہ پاک اور بلند وبالا ہے اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بناتے ہیں ) الزمر / 67
یہ جاننا واجب اور ضروری ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنے کمال علو اور کمال عظمت کے ساتھ اپنی مخلوق میں سے کسی میں حلول کرے اس لۓ یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ تعالی جنت میں ہے بلکہ وہ تو عرش پر مستوی ہے جو کہ فردوس کی چھت ہے اور فردوس جنت کا سب سے اعلی اور اونچا درجہ ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جب تم اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ وہ جنت کا سب سے اونچا اور درمیان ہے اور اس کی چھت رحمان کا عرش ہے )
اور کسی مسلمان کے لۓ یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالی کی ذات میں سوچتا پھرے اور یا پھر اس کی عظمت کا احاطہ کا خیال کرے ، کیونکہ انسان کی عقل اس بات سے عاجز ہے کہ وہ رب تعالی کی ذات اور اس کی صفات اور اس کی کیفیت کی حقیقت کی معرفت پا سکے ۔
جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے :
جب امام مالک رحمہ اللہ سے اللہ تعالی کے عرش پر استواء کی کیفیت کا سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :
( استواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول اور اس پر ایمان لانا واجب اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے ) .