الحمد للہ.
خوشبو اور عطر دنیا کے متاع اور زینت سے تعلق رکھتے ہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح کیا ہے کہ دنیا میں سے انہیں خوشبو محبوب ہے۔
جیسے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ: (تمہاری دنیاوی چیزوں میں سے مجھے بیوی اور خوشبو محبوب ہے، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بنا دی گئی ہے۔) اس حدیث کو نسائی: (3939) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح سنن نسائی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
یہ چیز بالکل واضح ہے کہ مہنگی خوشبو کی بو بھی بہت اچھی ہوتی ہے، اور سستی خوشبو کے مقابلے میں زیادہ دیر تک قائم رہتی ہے، اس لیے اچھی اور مہنگی خوشبو خریدنا فضول خرچی میں شامل نہیں ہو گا، البتہ کچھ صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں مہنگی خوشبو خریدنے سے منع کیا جائے گا، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
الف- خوشبو کے لیے مطلوب رقم موجود نہ ہو اور قرض لے کر مہنگی خوشبو خریدے، یا رقم تو موجود ہو لیکن خوشبو خریدنے کی وجہ سے اہل و عیال وغیرہ کے خرچے پر منفی اثرات پڑیں۔
ب- مہنگی خوشبو خرید کر فخر ،تکبر اور شیخی بگھارنا مقصود ہو۔
ج- بلا ضرورت بہت زیادہ مقدار میں نہ خریدے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
آج کل شادیوں کا موسم ہے اور کچھ لوگ عود [خوشبو دار دھونی کے لیے مخصوص لکڑی] خریدتے ہوئے بہت زیادہ فضول خرچی کرتے ہیں، کبھی کبھار تو ان کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہے، اور اگر ان سے اس حوالے سے بات کی جائے تو سیدنا عمر سے مروی ایک قول کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا: "اگر خوشبو خریدنے کے لیے انسان اپنی ساری جمع پونجی بھی خرچ کر دے تو یہ اسراف میں نہیں آئے گا۔" آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
تو انہوں نے جواب میں کہا:
"بلا شبہ خوشبو اچھی چیز ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہاری دنیاوی چیزوں میں سے مجھے بیوی اور خوشبو محبوب ہے، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بنا دی گئی ہے۔) اصل بات یہ ہے کہ: اگر خوشبو دار دھونی بار بار نہ دی جائے تو اس میں کوئی اسراف نہیں ہے، یعنی شادی ہال میں لوگ گروپ بنا کر آتے ہیں، اور جیسے کوئی گروپ آئے تو ان کے لیے دھونی دار خوشبو پیش کی جائے تو اس میں کوئی اسراف نہیں، یہ الگ بات ہے کہ جو سب سے پہلے آئے انہیں بار بار دھونی پیش ہو گی لیکن پھر بھی یہ اسراف نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں خوشبو آخر میں آنے والے گروپ کے لیے ہے، اس لیے ہم کہیں گے کہ یہ اسراف نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص بلا ضرورت اتنا خوشبو دار دھواں کرتا ہے کہ شادی کی ساری تقریب میں جاری رہے، تو یہ اسراف میں آئے گا۔"
" اللقاء الشهري " ( 37 / سوال نمبر: 16 )
آپ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
کچھ اہل علم کہتے ہیں اسراف ہر فرد کے اعتبار سے الگ ہو سکتا ہے، اسی طرح خوشبو کی خریداری کا معاملہ بھی ہے، انسان خوشبو خریدنے کے لیے جتنا مرضی سرمایہ لگا دے یہ اسراف نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی اس بارے میں کچھ مروی ہے۔
تو آپ نے جواب دیا:
"عبادات میں اسراف ہر فرد کے اعتبار سے الگ نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ یہ تو شریعت نے متعین کر دیا ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کرتے ہوئے ایک بار، دو بار، اور تین بار بھی اپنے اعضا دھوئے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو اس سے زیادہ بار دھوئے تو وہ برا کام کرتا ہے، اور ظلم و زیادتی کر رہا ہے)
جبکہ عادات میں اسراف ہر فرد کے اعتبار سے الگ الگ ہو سکتا ہے، چنانچہ کچھ لوگوں کے لیے کوئی کام اسراف ہو سکتا ہے تو کچھ لوگوں کے لیے وہی کام اسراف اور فضول خرچی میں نہ آئے، اسی طرح ایک ملک کے باشندوں میں وہی کام فضول خرچی میں شمار ہوتا ہو لیکن دوسرے ملک کے باشندوں میں اسے فضول خرچی نہ کہا جاتا ہو، چنانچہ عادات میں اسراف نسبی معاملہ ہے، تاہم اسراف کے بارے میں جاننے کے لیے یہ اصول معاون ہے کہ: حد سے تجاوز اسراف میں شامل ہوتا ہے۔"
جبکہ خوشبو کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی انسان صاحب ثروت اور دولت ہے اور وہ بہت مہنگی خوشبو خریدتا ہے تو یہ اسراف میں شمار نہیں ہو گا ؛ کیونکہ مہنگی اور اچھی خوشبو دیر تک باقی رہتی ہے۔ لیکن اگر کوئی غریب شخص اس طرح کی خوشبو خریدے تو یہ اس کے لیے اسراف میں آئے گا۔"
" لقاءات الباب المفتوح " ( 8 / سوال نمبر: 24 )
واللہ اعلم