الحمد للہ.
پرانے سکے اگر سونے کے ہوں اور انہیں سونے کے عوض ہی فروخت کیا جائے، یا پھر چاندی کے ہوں اور انہیں چاندی کے عوض فروخت کیا جائے تو وزن میں برابری ضروری ہے اور اس مجلس میں قبضہ بھی ضروری ہے، اور اگر انہیں کسی اور چیز کے عوض فروخت کیا جائے مثلاً: سونے کا سکہ چاندی کے سکے کے عوض فروخت کیا جائے ، یا نقدی نوٹ کے عوض فروخت ہو یا چاندی کو نوٹوں کے عوض فروخت کیا جائے تو پھر صرف اسی مجلس میں قبضہ ضروری ہے، دونوں کا ہم وزن ہونا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، نمک نمک کے بدلے فروخت ہو تو برابر وزن اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گی، لیکن جب یہ چیزیں ایک دوسرے کے عوض فروخت ہوں تو تم نقد و نقد جیسے چاہو فروخت کرو۔) مسلم : (2970) نے اسے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
اب اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سکہ رائج الوقت ہے یا نہیں، چونکہ وہ سونے یا چاندی کا ہے تو یہ حدیث میں مذکور اصناف میں شامل ہے جن میں سود ہو سکتا ہے۔
لیکن اگر سکہ سونے اور چاندی کا نہیں ہے، مثلاً: کاغذ یا پیتل وغیرہ کا ہے اور اب وہ رائج الوقت بھی نہیں ہے، تو اس کی خرید و فروخت بائع اور مشتری کے اتفاق کے مطابق ہو سکتی ہے، لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ اسراف اور فضول خرچی نہ ہو؛ کیونکہ کچھ لوگ ایسی نادر کرنسیاں خریدنے کے لیے بہت زیادہ دولت لٹا دیتے ہیں، جبکہ شریعت نے دولت کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے ، اسے ضائع کرنے سے منع کیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پرانے سکوں کو ان کی قیمت سے زیادہ دے کر خریدنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اب یہ کرنسی پرانی ہو چکی ہے اور بطور کرنسی استعمال نہیں کی جا رہی ، مثلاً کسی کے پاس قدیم سرخ رنگ کا ایک ریال ہے، یا پانچ ریال ہیں ، یا دس ریال ہیں جو کہ اب بند ہو چکے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ 10 والا ریال 100 ریال میں فروخت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ اس وقت نقدی نوٹ نہیں ہے بلکہ سامان تجارت ہے، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (233/18)، مختصراً اقتباس مکمل ہوا
واللہ اعلم