الحمد للہ.
اول:
صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ مقیم شخص کے لیے موزوں پر مسح کرنے کی مدت ایک دن اور رات ہے، جبکہ مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں مدت ہے، جیسے کہ صحیح مسلم: (276) میں سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسافر کے لیے تین دن اور راتیں مقرر فرمائیں، جبکہ مقیم کے لیے ایک دن اور رات مدت مقرر فرمائی)
اسی طرح سنن ترمذی: (95) ، سنن ابو داود: (157) اور سنن ابن ماجہ: (553) میں سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: (مسافر کے لیے تین اور مقیم کے لیے ایک دن) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
اہل علم کے راجح موقف کے مطابق مسح کی مدت کا آغاز وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے شروع ہو گا، نہ کہ موزے پہننے سے، چنانچہ اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے وضو کر کے موزے پہن لیتا ہے اور پھر صبح 9 بجے اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور وہ وضو نہیں کرتا۔ پھر جب 12 بجتے ہیں تو وہ وضو کرتا ہے تو مسح کی مدت کا آغاز 12 بجے شروع ہو گا اور ایک دن اور رات تک جاری رہے گا، یعنی 24 گھنٹے۔
جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اوزاعی اور ابو ثور کہتے ہیں: مدت کا آغاز وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے ہو گا، یہی موقف امام احمد اور داود سے منقول ہے، اور یہی موقف دلیل کے اعتبار سے پسندیدہ اور راجح ہے، اسی موقف کو ابن المنذر نے اپنایا، اور یہی موقف عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔" ختم شد
"المجموع" (1/512)
یہی موقف ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اپنایا ہے، آپ کہتے ہیں:
"کیونکہ احادیث یہ کہتی ہیں کہ مقیم اور مسافر دونوں مسح کریں گے، اور جب تک کوئی مسح نہ کرے تو اس وقت تک اسے مسح کرنے والا کہنا ٹھیک نہیں ہے، یہی موقف درست ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (1/186)
واللہ اعلم