جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

لوگوں نے فطرانہ جمع كروايا ليكن فقراء نہ ملنے كى وجہ سے عيد كے بعد تقسيم كيا

99499

تاریخ اشاعت : 07-09-2010

مشاہدات : 6470

سوال

ايك شخص اٹلى ميں مقيم ہے، اور اپنے علاقے كى مسجد كا متولى اور نگران ہے، مسجد كے كام مثلا خرچہ وغيرہ اور رمضان ميں فطرانہ جمع كرنا تا كہ مستحقين تك پہنچايا جا سكے، ليكن مستحقين كى مكمل شروط والا شخص نہيں ملا جسے وہ فطرانہ وغيرہ ديا جا سكے، اور ابھى تك اس كے پاس ہى جمع ہے، تو كيا مسجد كا نگران اسے مسجد كے خرچہ ميں جمع كر لے ؟
يہ علم ميں رہے كہ مسجد كے اخراجات كافى ہيں، يا كہ وہ اپنے ملك ميں شرعى علوم پڑھانے والے مدرسہ كو دے دے، كيونكہ مدرسہ محسنين سے چندہ جمع كر كے چلايا جا رہا ہے، اور آيا كيا ايسے كرنے ميں كوئى حرج تو نہيں، كيونكہ ا سكا بيٹا اس مدرسہ ميں پڑھتا ہے، اور كيا فطرانہ دينے والوں كے اجروثواب ميں تو كمى واقع نہيں ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فطرانہ نماز عيد سے قبل ادا كرنا واجب ہے؛ كيونكہ ابو داود اور ابن ماجہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے روزہ دار كے ليے لغو فضول حركتوں سے پاكى اور مساكين كے ليے بطور كھانا فطرانہ فرض كيا، جس نے نماز سے قبل فطرانہ ادا كيا تو يہ فطرانہ قبول ہوگا، اور جس نے نماز عيد كے بعد ادا كيا تو يہ عام صدقات ميں سے ايك صدقہ ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1827 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ابو داود كى شرح عون المعبود ميں لكھا ہے:

" اور ظاہر يہ ہوتا ہے كہ جس نے بھى نماز عيد كے بعد فطرانہ ادا كيا تو وہ اسى طرح ہے جس نے فطرانہ ادا ہى نہ كيا ہو، اس وجہ سے كہ اس نے واجب كردہ صدقہ چھوڑا ہے.

اور اكثر علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ: نماز عيد سے قبل فطرانہ كى ادائيگى صرف مستحب ہے، اور انہوں نے بالجزم يہ كہا ہے كہ عيد والے دن كے آخر تك اس كى ادائيگى ہو سكتى ہے، ليكن حديث ان كا رد كرتى ہے.

اور رہا يہ كہ فطرانہ كى ادائيگى يوم عيد سے بھى مؤخر كرنا ت واس كے متعلق ابن رسلان كہتے ہيں:

يہ بالاتفاق يہ حرام ہے، كيونكہ يہ زكاۃ ہے، تو اس كى ادائيگى ميں تاخير كرنا گناہ كو موجب ہوگا، جس طرح كہ نماز كو وقت نكلنے كے بعد ادا كرنا گناہ ہے " انتہى.

اس بنا پر اس امام نے جمع كردہ فطرانہ كى ادائيگى ميں تاخير كر كے غلطى كى ہے، اس كو چاہيے كہ وہ مساكين اور مستحقين كو تلاش كرتا، يا پھر كسى اور ملك اور علاقہ جہاں محتاجين تھے وہاں بھيج ديتا.

دوم:

جس نے بھى بغير كسى عذر كے يوم عيد كے بعد فطرانہ ادا كيا تو وہ گہنگار ہوگا، اس پر فطرانہ كى قضاء لازم ہے، اور مسجد كے نمازيوں كو كوئى گناہ نہيں، كيونكہ انہوں نے اسے اپنى جانب سے فطرانہ ادا كرنے كا وكيل بنايا تھا، اور اب امام كو چاہيے كہ وہ مستحقين تك فطرانہ پہنچائے، اور فطرانہ مسجد كے اخراجات ميں شامل كرنا جائز نہيں.

رہا شرعى علوم كى تعليم دينے والا مدرسہ اگر تو مدرسہ ميں زير تعليم طلباء فقراء ہيں اور زكاۃ كے مستحق ہوں تو فطرانہ انہيں دينا جائز ہے، وگرنہ نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر وہ اس ( يعنى فطرانہ كى ادائيگى ) ميں يوم عيد كے بعد تك تاخير كرتا ہے تو وہ گنہگار ہوگا، اور اس پر قضاء لازم ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 458 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" مالكيہ اور شافعيہ اور حنابلہ كى رائے يہ ہے كہ جس نے بھى ادائيگى كى استطاعت كے باوجود فطرانہ يوم عيد كے بعد تك مؤخر كيا تو وہ گنہگار ہوگا، اور اس پر قضاء لازم ہے " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 43 / 41 ).

اور مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا فطرانہ كى ادائيگى كا وقت نماز عيد سے ليكر دن كے آخر تك ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" فطرانہ كى ادائيگى كا وقت نماز عيد كے بعد شروع نہيں ہوتا، بلكہ رمضان كے آخرى دن كا سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے جو كہ شوال كى پہلى رات ( جسے عرف عام ميں چاند رات كہا جاتا ہے ) ہے، اور نماز عيد كے وقت پر ختم ہو جاتا ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد كى ادائيگى سے قبل فطرانہ ادا كرنے كا حكم ديا ہے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے نماز عيد سے قبل ادا كر ديا تو يہ فطرانہ مقبول ہے، اور جس نے نماز عيد كے بعد ادا كيا تو يہ عام صدقات ميں سے ايك صدقہ ہے "

اور عيد سے ايك يا دو يوم قبل فطرانہ كى ادائيگى جائز ہے، اس كى دليل ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ حديث ہے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رمضان المبارك ميں فطرانہ فرض كيا......

اور اس حديث كے آخر ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:

" اور يہ فطرانہ عيد سے ايك يا دو يوم قبل ديا كرتے تھے "

چنانچہ جس شخص نے بھى اس كى ادائيگى وقت ميں نہ كى تو وہ گنہگار ہوگا، اور اسے اس ميں تاخير سے توبہ و استغفار كرنا ہوگى، اور اس كے ساتھ ساتھ فطرانہ بھى فقراء كو ادا كرنا ہوگا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 373 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ميں نے فطرانہ ادا نہيں كيونكہ عيد كا اعلان اچانك ہواتھا، اور عيد الفطر كے بعد مجھے يہ دريافت كرنے كى فرصت ہى نہيں ملى كہ ا ب اس سلسلہ ميں مجھے كيا كرنا چاہيے، تو كيا فطرانہ مجھ سے ساقط ہو گيا ہے يا كہ ادائيگى ضرورى ہے، اور اس كى حكمت كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

فطرانہ كى ادائيگى فرض ہے، ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ فرض كيا "

تو يہ ہر مسلمان مرد و عورت بچے اور بوڑھے، آزاد و غلام پر فرض ہے، اگر فرض كيا جائے كہ عيد اچانك ہوئى ہو اور آپ اسے پہلے نہيں ادا كر سكے، تو آپ اسے عيد كے دن ادا كر ديں، چاہے نماز كے بعد ہى ادا كرتے، كيونكہ فرضى عبادت كا وقت جب كسى عذر كى بنا پر ختم ہو جائے تو وہ عذر زائل ہوتے ہى اس كى ادائيگى كى جائيگى.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نماز كے بارہ ميں فرمان ہے:

" جو شخص نماز بھول جائے، يا سويا رہے تو جب اسے ياد آئے اسى وقت اس كى ادائيگى كر لے، ا سكا كفارہ يہى ہے "

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت تلاوت كى:

اور ميرى ياد كے ليے نماز قائم كر . طہ

اس بنا پر ميرے سائل بھائى آپ كو فطرانہ كى ادائيگى اب كر دينى چاہيے " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 / 271 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" اور اگر كسى عذر مثلا بھولنے، يا پھر چاند رات كو فقراء نہ ملنے كى بنا پر فطرانہ كى ادائيگى ميں تاخير كى تو فطرانہ قبول ہوگا، چاہے اس نے اسے اپنے مال كے ساتھ واپس كر ديا، يا اسے فقير اور محتاج كے آنے تك باقى ركھا "

اس امام مسجد كو چاہيے كہ وہ جمع كردہ فطرانہ فقراء و محتاجين كو ادا كردے، اگر اس كے علاقے ميں فقراء و محتاجين نہيں ملتے تو پھر كسى اور ملك اور علاقے بھيج دے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے فطرانہ كسى اور ملك اور علاقے ميں بھيجنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب يہ تھا:

" اگر تو كسى ضرورت مثلا محتاج اور فقراء نہ ملنے كى صورت ميں فطرانہ كسى اور علاقے ميں بھيجا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر بغير كسى ضرورت كے ہو كسى اور علاقہ ميں فطرانہ بھيجا جائے مثلا اس علاقے ميں فقراء و محتاجيں ہوں تو پھر اہل علم كے قول كے مطابق كسى اور علاقے ميں فطرانہ بھيجنا جائز نہيں " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 318 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب