الحمد للہ.
اول:
فطرانہ كى ادائيگى انسان پر فرض ہے، اور اس كى جانب سے بھى ادائيگى فرض ہے جس كا اس كے ذمہ خرچ ہے مثلا بيوى اور اولاد وغيرہ اس كى دليل دار قطنى اور بيہقى كى درج ذيل حديث ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كا خرچ برداشت كرتے ہو ان كى جانب سے فطرانہ ادا كرو "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے، اسے دار قطنى اور بيہقى نے اور امام نووى اور ابن حجر وغيرہ نے ضعيف قرار ديا ہے.
ديكھيں: المجموع ( 6 / 113 ) تلخيص الحبير ( 2 / 771 ).
مستقف فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" فطرانہ ہر انسان پر اپنى اور اس كى جانب سے جس كا اس پر خرچ واجب ہے ادا كرنا فرض ہے، اور ان ميں بيوى بھى شامل ہى كيونكہ اس كا خرچ خاوند پر فرض ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 367 ).
دوم:
جب عورت كو طلاق دى گئى ہو تو وہ بيويوں كے حكم ميں آتى ہے، اس كے وہى حقوق ہيں جو بيوى كے ہيں اسے رہائش اور اخراجات وغيرہ ادا كرنا ہونگے، جب تك وہ عدت ميں ہو، اور فطرانہ بھى نفقہ كے تابع ہے، لہذا جب طلاق والى عورت كا نان و نفقہ خاوند كے ذمہ ہے تو اسى طرح فطرانہ بھى اس كے ذمہ ہو گا.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: طلاق رجعى والى بيوى كا فطرانہ خاوند كے ذمہ ہے جس طرح ان كا نان و نفقہ ہے " انتہى
ديكھيں: المجموع ( 6 / 74 ).
اور مالكى علماء ميں سے ابن يوسف المواق كہتے ہيں:
" اگر دخول كے بعد بيوى كو طلاق رجعى دى جائے تو اس كا نفقہ اور فطرانہ كى ادائيگى خاوند كے ذمہ واجب ہے " انتہى بتصرف
ديكھيں: التاج والاكليل ( 3 / 265 ).
اور بعض علماء كہتے ہيں كہ:
" بيوى كى جانب سے خاوند كے ليے فطرانہ كى ادائيگى لازم نہيں، بلكہ يہ بيوى كے ذمہ واجب ہے، امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے.
اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 99353 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور خاوند كو چاہيے كہ وہ احتياط اور برى الذمہ پر عمل كرتے ہوئے طلاق رجعى والى بيوى كى جانب سے فطرانہ كى ادائيگى كرے، اور خاص كر جبكہ فطرانہ تو بہت قليل ہوتا ہے اور اكثر اس كى ادائيگى ميں خاوند كے ليے كوئى مشقت نہيں ہوتى.
واللہ اعلم .