اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قبر پر قرآن مجيد پڑھنے كا حكم

سوال

ہمارے گاؤں ميں بعض لوگ قراء كرام كى ايك جماعت كو اكٹھا كر كے قرآن مجيد كى تلاوت كرواتے اور كہتے ہيں كہ ايسا كرنا ميت كے ليے فائدہ مند اور اس پر رحمت كا باعث ہے.
اور بعض دوسرے لوگ ايك يا دو قاريوں كو بلا كر قبر كے اوپر قرآن مجيد كى تلاوت كرواتے ہيں، اور بعض دوسرے لوگ بہت بڑى محفل كا اہتمام كرتے ہيں جس ميں مشہور و معروف قارى كو دعوت دى جاتى ہے، اور لاوڈ سپيكروں كا انتظام ہوتا ہے تا كہ وہ اپنے فوت شدہ كى برسى مناسكيں، ايسے كام كا دين اسلام ميں كيا حكم ہے؟
اور كيا قبر وغيرہ پر قرآن مجيد كى تلاوت سے ميت كو فائدہ ہوتا ہے؟ اور ميت كو نفع اور فائدہ دينے كے ليے شرعى اور بہتر طريقہ كيا ہے ؟
برائے مہربانى ہميں فتوى ديكر عند اللہ ماجور ہوں، ہمارى طرف سے آپ كا شكريہ.

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ عمل بدعت اور ناجائز ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس معاملہ ( دين ) ميں ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے"

اس حديث كے صحيح ہونے پر اتفاق ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل مردود ہے"

اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اس موضوع كے متعلق بہت احاديث وارد ہيں.

اور پھر نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ تھا اور نہ ہى آپ كے خلفاء راشدين كا طريقہ تھا كہ قبروں پر قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے، يا پھر فوت شدگان كے ليے محفليں اور جشن منائےجائيں اور ان كى برسياں منائى جائيں.

اور پھر خير و بھلائى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى اور خلفاء راشدين اور ان كے راستے پر چلنے والوں كے راستہ پر چلنے ميں ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو مہاجرين اور انصار سابق اورمقدم ہيں اور جتنے لوگ اخلاص كے ساتھ ان كے پيروى كرنے والے ہيں اللہ ان سب سے راضى ہوا اور وہ سب اس سے راضى ہوئے، اور اللہ تعالى نے ان كے ليے ايسے باغات تيار كر ركھے ہيں جن كے نيچے سے نہريں جارى ہونگى اس ميں وہ ہميشہ رہينگے، يہ بہت بڑى كاميابى ہے التوبۃ ( 100 )

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرى اور ميرے بعد ميرے خلفاء راشدين المھديين كى سنت كو لازم پكڑو، اسے دانتوں كے ساتھ مظبوطى سے پكڑے ركھو، اور نئے نئے كاموں سے بچو كيونكہ ہر نئى چيز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے"

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح طور پر ثابت ہے كہ وہ خطبہ جمعہ ميں فرمايا كرتے تھے:

" اما بعد: يقينا سب سے بہتر بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برا كام اس ميں نئے كام ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے"

اس موضوع اور معنى كى اور بھى بہت سى احاديث ہيں.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحيح احاديث ميں مسلمان كو فوت ہونے كے بعد فائدہ دينے والى اشياء بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" جب انسان فوت ہو جاتا ہے، تو اس كے سارے عمل منقطع ہو جاتے ہيں، صرف تين قسم كے عمل منقطع نہيں ہوتے، صدقہ جاريہ، يا نفع مند علم، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرتى رہے"

اسے مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ سے ايك شخص نے دريافت كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ميرے والدين كى موت كے بعد مجھ پر كوئى چيز باقى ہے جسے كر كے ميں ان كے ساتھ نيكى و احسان كر سكتا ہوں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جى ہاں؛ ان كى نماز جنازہ ادا كرنا اور ان كے ليے دعائےاستغفار كرنا، اور ان كے بعد ان كے عہد پورے كرنا، اور ان كے دوست و احباب كى عزت و تكريم كرنا، اور ان كى وجہ سے قائم رشتہ داروں سے صلہ رحمى كرنا "

عہد سے مراد ان كى وصيت ہے جو مرتے وقت كى جاتى ہے، اگر تو وہ وصيت شريعت كے مطابق ہے تو اسے پورى كرنا ميت كے ساتھ نيكى و احسان ہے، اور والدين كے ساتھ احسان اور نيكى ميں يہ بھى شامل ہے كہ ان كى جانب سے صدقہ و خيرات كيا جائے، اور ان كے ليے دعا اورحج اور عمرہ كيا جائے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ماخذ: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ تعالى ( 9 / 319 )