جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

حمل كى حالت ميں مطلقہ عورت اور بچے كا خاوند پر كيا لازم آتا ہے

تاریخ اشاعت : 06-04-2011

مشاہدات : 8341

سوال

ميں اپنى بيوى كو طلاق دينے والا ہوں، بيوى حاملہ ہے ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ عدت كے دوران اس كے شرعى اخراجات كيا ہونگے، اور وضع حمل كى صورت ميں بچے كا خرچ كيا ہو گا، كيونكہ ميں دوسرى شادى كرنے والا ہوں، شادى كے اخراجات بھى ہيں اور نئے گھر كے بھى، تو اس نفقہ كا حساب كس طرح كيا جائيگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حاملہ مطلقہ عورت كو نفقہ اور رہائش دونوں اشياء مليں گى چاہے طلاق رجعى ہو يا طلاق بائن.

رجعى طلاق ميں اس ليے كہ وہ بيوى كے حكم ميں ہے حتى كہ عدت ختم ہو جائے، اور يہ عدت وضع حمل سے ختم ہوگى.

رہى بائنہ طلاق والى عورت تو اس كے نفقہ كى دليل سنت نبويہ اور اجماع ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بالجملہ يہ كہ: جب آدمى بيوى كو طلاق بائن دے يعنى يا تو تين طلاق ہو يا پھر خلع يا پھر فسخ نكاح، اور بيوى حاملہ ہو تو اسے نفقہ اور رہائش ملے گى، اس پر اہل علم كا اجماع ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

تم انہيں وہيں ركھو جہاں رہتے ہو اپنى استطاعت كے مطابق اور انہيں نقصان نہ دو تا كہ تم ان پر تنگى كرو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ كرو حتى كہ وہ حمل وضع كر ديں .

اور بعض احاديث ميں ہے كہ فاطمہ بنت قيس كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:

" تمہيں نفقہ نہيں ملےگا، الا يہ كہ تم حاملہ ہو "

اور اس ليے بھى كہ حمل خاوند كا بچہ ہے، اس ليے اس پر خرچ كرنا باپ پر واجب ہے، اور يہ اس وقت ہى ممكن ہو سكتا ہے جب عورت پر خرچ كيا جائے، اور اسى طرح رضاعت كى اجرت بھى واجب ہو گى " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 185 ).

حاملہ عورت كے علاوہ طلاق بائن والى عورت كو نفقہ اور رہائش نہ ملنے كى دليل صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:

شعبى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ميں فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گيا اور ان سے ان كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فيصلہ كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگيں:

" ان كے خاوند نے انہيں طلاق بتہ دے دى تھى، تو ميں يہ معاملہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لے كر گئى كہ مجھے رہائش اور نفقہ ملنا چاہيے.

وہ بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے ليے نہ تو نفقہ كا فيصلہ كيا اور نہ ہى رہائش كا، اور مجھے حكم ديا كہ ميں ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ كے گھر ميں عدت گزاروں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1480 ).

اور مسلم كى ايك روايت ميں ہے كہ:

" وہ كہتى ہيں: ميں نے اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا تو آپ نے فرمايا:

" نہ تو تيرے ليے نفقہ ہے اور نہ ہى رہائش "

اور ابن داود كى روايت ميں ہے كہ:

" آپ كو نفقہ نہيں ملےگا، ليكن يہ كہ آپ حاملہ ہوں "

دوم:

مرد پر حمل كى حالت ميں بچے كا نفقہ واجب ہے، اور اسى طرح رضاعت ميں بھى، اور رضاعت كے بعد كا خرچ بھى والد پر ہے، اس ميں سے ماں پر كچھ بھى لازم نہيں چاہے ماں مالدار ہى كيوں نہ ہو.

نفقہ ميں ولادت كے اخراجات، اور رہائش اور كھانا پينا اور لباس اور رضاعت كى اجرت، اور بچے كو جو علاج معالجہ كى ضرورت ہو اس كے اخراجات بھى شامل ہونگے.

جب مطلقہ عورت حمل وضع كر لے تو نہ اسے نفقہ ملےگا اور نہ ہے رہائش، ليكن اس كے بچے كا خرج اور اسے رہائش دى جائيگى، اور عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ بچے كے باپ سے رضاعت كى اجرت كا مطالبہ كرے.

اور جب مطلقہ عورت بچے كى پرورش كرنے والى ہو تو فقھاء كرام كا اس كے نفقہ اور رہائش ميں اختلاف ہے كہ آيا باپ پر لازم ہو گا يا نہيں، يعنى جس بچے كى پرورش ہو رہى ہے اس كے باپ پر، يا كہ ماں پر يا جو شخص ماں پر خرچ كر رہا ہے اس پر لازم ہوگا، يا كہ وہ اس ميں شريك ہوگا، كہ خاوند اور مطلقہ دونوں ہى خرچ ادا كريں، يہ حاكم كےاجتھاد كے مطابق ہوگا.

يا كہ اگر اس كى رہائش ہو تو وہ اس پر اكتفا كرےگى اور اگر اس كے پاس رہائش نہيں تو پھر بچے كے باپ پر لازم ہے كہ وہ اسے رہائش فراہم كرے ؟ اس ميں كئى مشہور اقوال ہيں.

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 562 ) اور شرح الخرشى ( 4 / 218 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 313 ).

جيسا كہ بيان ہو چكا ہے كہ اگر باپ پر دودھ پيتے بچے كى رہائش لازم كى گئى ہو تو مطلقہ عورت كے ليے شرط لگائى جائيگى كہ جب تك وہ بچے كى پرورش كريگى يا پھر دودھ پلائيگى وہ بھى اس كے ساتھ ہى رہائش ميں رہےگى، اور اسے اپنے ميكے ميں رہنا لازم نہيں، يا پھر اسے مكان كرايہ پر لے كر ديا جائيگا، اور بچے كے باپ اور ماں دونوں كو حق حاصل ہے كہ وہ عورت كے ميكے ميں رہنے پر صلح كر ليں يا پھر عورت كے ليے خاص مكان ہو.

سوم:

بالاتفاق بچے كى رضاعت كى اجرت والد پر ہے، اور طلاق دينے والا باپ يہ حق نہيں ركھتا كہ وہ اپنى مطلقہ بيوى كو اپنے بچے كو دودھ پلانے پر مجبور كرے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بچے كى رضاعت اكيلے باپ كے ذمہ ہے، اور اسے بچے كى ماں كو رضاعت پر مجبور كرنے كا حق حاصل نہيں، چاہے عورت غلط ہو يا شريف، اور چاہے وہ عقد زوجيت ميں ہو يا پھر طلاق يافتہ، ہمارے علم كے مطابق اگر بيوى علحدہ ہو چكى ہے تو اسے بالاتفاق رضاعت پر مجبور نہيں كيا جا سكتا.

ليكن اگر وہ اپنے خاوند كے ساتھ ہے تو ہمارے ہاں اسى طرح ہے، اور امام ثورى اور شافعى اور اصحاب الرائے بھى يہى كہتے ہيں "

ديكھيں: المغنى ( 11 / 430 ).

اور ان كا كہنا ہے:

" جب ماں رضاعت كى اجرت مثل طلب كرے تو وہ اس كى زيادہ حقدار ہے، چاہے وہ حال زوجيت ميں ہو، يا پھر اس كے بعد، اور چاہے باپ كو فرى دودھ پلانے والى مل گئى ہو، يا نہ ملے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 11 / 431 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہا رضاعت كى اجرت كا مسئلہ تو علماء كرام كا اتفاق ہے كہ عورت كو اس كا حق حاصل ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر وہ تمہارے ليے دودھ پلائيں تو انہيں ان كى اجرت دو .

اور خوشحال شخص پر نفقہ واجب ہوگا، ليكن تنگ دست پر نفقہ نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 347 ).

چہارم:

رہى پرورش كى اجرت يعنى بچے كى ترتيب اور اس كى ديكھ بھال كى اجرت تو اس ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، حنابلہ حضرات كا مسلك يہ ہے كہ عورت كو پرورش كى اجرت طلب كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے كوئى ايسى عورت بھى موجود ہو جو بغير اجرت كے پرورش كرے.

منتھى الارادات ميں درج ہے:

" اور رضاعت كى طرح ماں زيادہ حقدار ہے چاہے اجرت مثل سے ہى ہو "

ديكھيں: شرح منتھى الارادت ( 3 / 249 ).

اور مالكى حضرات كا مسلك يہ ہے كہ: پرورش كرنے كى كوئى اجرت نہيں، اور احناف اور شافعى حضرات كے ہاں اس مسئلہ ميں تفصيل ہے.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 311 ).

پنجم:

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سب كا نفقہ اور خرچ بہتر طريقہ سے اندازے كے ساتھ مقرر كيا جائيگا، اور اس ميں خاوند كى حالت كا خيال ركھا جائيگا.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

خوشحال شخص اپنى وسعت سے خرچ كرے، اور جو تنگ دست ہو وہ اس ميں خرچ كرے جو اللہ نے اسے ديا ہے، اور اللہ تعالى ہر جان كو اتنا ہى مكلف كرتا ہے جتنا اسے ديا ہے، عنقريب اللہ تعالى تنگى كے بعد آسانى پيدا كر ديگا الطلاق ( 7 ).

اور ايك علاقے اور ملك اور شخص كے اعتبار سے مختلف ہوگا.

چنانچہ اگر خاوند مالدار ہے تو نفقہ اس كى مالدارى اور حيثيت كے مطابق ہوگا، يا پھر خاوند فقير و تنگ دست ہو يا متوسط الحال تو بھى اس كى حيثيت كے مطابق نفقہ ہوگا، اور اگر والدين ايك معين مقدار پر متفق ہو جائيں چاہے قليل ہو يا كثير تو يہ انہيں حق حاصل ہے، ليكن تنازع اور جھگڑے كے وقت وہى ہو گا جو قاضى فيصلہ كريگا.

حاصل يہ ہوا كہ: آپ پر بيوى اور اس كے حمل كا نفقہ وضع حمل تك لازم ہے، پھر اس كے بعد بچے كا نفقہ جس ميں اس كى رہائش شامل ہے لازم ہوگا، اور رضاعت اور پرورش كا خرچ بھى آپ مطلقہ كو ادا كريں گے اگر وہ مطالبہ كرتى ہے.

آپ كو چاہيے كہ آپ نفقہ كى تحديد پر اتفاق كر ليں اور اسے مقرر كر ليں جس سے بچہ اور اس كى پرورش كرنے والى ماں اچھى زندگى بسر كريں.

ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ يہ قدم اٹھانے سے قبل ذرا غور كريں، آپ كے سوال سے ہميں تو يہى ظاہر ہوا ہے كہ آپ جلد باز نہيں ہيں، اس ليے آپ اپنے معاملات كو غور سے ديكھيں، اگر تو اصلاح كى فرصت اور موقع ہے تو آپ كے ليے بھى اور آپ كے ہونے والے بچے كے ليے بھى زيادہ بہتر يہى ہے.

پھر يہ چيز آپ كو دوسرى عورت سے شادى كرنے سے منع نہيں كرتا جيسا كہ آپ كا عزم ہے، اور دونوں كو جمع كر سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب