جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

اسلام میں بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے

تاریخ اشاعت : 02-04-2004

مشاہدات : 20684

سوال

شادی کے کچھ برس بعد ایک شخص نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی اوراس سےبچہ لینے کی کوشش کی ، اب وہ عورت سوال کرتی ہے کہ بچے کی پرورش کا اسے زيادہ حق ہے یا کہ طلاق دینے والے خاوند کو، جبکہ خاص کروہ خود دوسر ے ملک اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے جاۓ‌ گی ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مردوں کی بنسبت عورتوں کوبچوں کی پرورش کا زیادہ حق حاصل ہے ، اوراس مسئلہ میں اصل عورتیں ہی ہیں ، اس لیے کہ بچوں کے لیے عورتيں ہی زيادہ مشفق اوررحم کرنے والی اورچھوٹوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی وہی صحیح اورلائق ہیں ، اوروہ پرورش اورتربیت کے معاملہ میں زيادہ صبرکرنے والی اورمشقت برداشت کرسکتی ہيں ۔

اوربالاتفاق بچہ یا بچی کی پرورش کازیادہ حق ماں کوہی حاصل ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں پرورش کرنے کی تمام شروط پائي جائيں ، اوراگرماں کہیں اورنکاح کرلے تواسے یہ حق حاصل نہيں رہے گا ۔

پرورش کرنے والے میں مندرجہ ذیل شروط کا ہونا ضروری ہے :

- تکلیف : یعنی مکلف ہو ۔

- حریۃ : یعنی وہ آزاد ہو غلام نہ ہو ۔

- عدالۃ : یعنی عادل ہو ۔

- اگربچہ مسلمان ہوتو پھر پرورش کرنے والا بھی مسلمان ہونا چاہیے ۔

- بچے کی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت وقدرت رکھے ۔

- عورت پرورش والے بچے سے کسی اجنبی مرد سے شادی شدہ نہ ہو ۔

اگر ان شروط میں کوئی شرط مفقود ہویا پھر کوئی مانع مثلا مجنون، یا پھر شادی وغیرہ پیدا ہوجاۓ توپرورش کا حق ساقط ہوجاۓ گا ۔

اورجب یہ مانع زائل ہوجاۓ توپرورش کا حق اسے دوبارہ مل جاۓ گا ، لیکن اولی اوربہتر یہ ہےکہ پرورش کیے جانے والے بچے کی مصلحت کومدنظر رکھا جاۓ اس لیے کہ بچے کا حق مقدم ہے ۔

پرورش کی مدت امتیاز اوراستغناء کی عمر تک ہے ، یعنی پرورش اس وقت تک رہے گی جب تک بچہ تمیز تک نہ پہنچ جاۓ اوردوسروں کا محتاج نہ رہے ، یعنی وہ اکیلا کھا پی سکے ، اوراسی طرح استنجا وغیرہ بھی اکیلا ہی کرسکے توپرورش کی مدت ختم ہوجاۓ گی ۔

اورجب وہ اس حد تک پہنچ جاۓ چاہے وہ بچہ ہویا بچی پرورش کی مدت ختم ہوجاۓ گی ، اوریہ تقریبا سات یا آٹھـ برس کی عمر ہے ۔

اورسفرکی بنا پر پرورش کی منتقلی کے بارہ میں گزارش ہے کہ :

جب والدین آپس میں جدا ہوجائيں اورسفر کی بنا پراپنے بچے کی پرورش کے متعلق آپس میں اختلاف پیدا ہوجاۓ تو اس مسئلہ میں سفرکی کئی ایک صورتیں ہیں :

1 – اگروالدین میں سے کوئي ایک منتقلی کے لیے نہیں بلکہ وہ کچھ دیر کے بعد اپنے اس سفر سے واپس آ جاۓ گا تواس صورت میں مقیم بچے کا زيادہ حقدار ہے ۔

2 – اگر والدین میں سے کوئي ایک کسی دوسرے ملک میں مستقل رہائش کے لیے سفر کرے اورراستہ یا پھر وہ ملک خطرناک ہوتواس صورت میں مقیم بچے کا زيادہ حقدار ہے ۔

3 – اوراگردونوں میں سے کوئی ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونا اوروہیں رہنا چاہے اورملک اور راستہ پرامن ہے توپھر اس صورت میں ماں سے زیادہ والد بچے کا حق رکھتا ہے ، چاہے منتقل ہونے والا والد ہویا والدہ ۔

4 – اوراگروالدین دونوں ہی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہونا چاہیں توپھر اس صورت میں والدہ بچے کی پرورش کا حق باقی رکھتی ہے ۔

5 – اگر سفر کی مسافت بہت کم ہو اوروالد انہيں اوروہ ہرروز والد کودیکھ سکتے ہوں اس صورت میں بھی ماں کو حق پرورش حاصل ہے ۔

جب بچہ حد استغناء کوپہنچ جاۓ اوروہ کسی کا محتاج نہ رہے تو پرورش کی مدت ختم ہوجاۓ گی ، اوراس کے بعد بچے کی مدت کفالت شروع ہوگی جو کہ اس کی بلوغت تک رہے گی یا پھر اگر بچی ہوتو اس کے حیض آنے تک رہے گی ، اس طرح مدت کفالت بھی بلوغت کے وقت ختم ہوگی اوربچہ اپنے تصرفات میں آزاد تصور کیا جاۓ گا ۔

چھوٹے بچوں کی کفالت میں عورت کا حق :

فقھاء کے مذاہب سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کوبالجملہ بچے کی کفالت کا حق حاصل ہے ، اورخاص کر ماں اورنانی کو ، لیکن فقھاء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ جب والدین بچے کی کفالت میں اختلاف کریں اوردونوں کفالت کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تواس صورت میں کفالت کا زیادہ حق کسے حاصل ہوگا ؟

مالکیہ اورظاہریہ کے ہاں توماں کوبچے کی کفالت کا زيادہ حق حاصل ہوگا چاہے وہ بچہ ہو یا بچی ۔

اورحنابلہ بچہ ہونے کی صورت میں اختیار دیتے ہیں ، لیکن اگر بچی ہوتوپھرباپ کوزيادہ حق ہے ۔

احناف کے ہاں بچہ ہوتو والدکواس کا زيادہ حق حاصل ہے ، اوراگربچی ہوتوماں کوحق کفالت زيادہ ہے ۔

ان میں سے راجح یہی لگتا ہے کہ جب وہ آپس میں تنازع کریں اورشروط کفالت بھی پائي جائيں تواس میں تخییر والا قول صحیح ہے ۔ .

ماخذ: دیکھیں کتاب " ولایۃ المراۃ فی الفقہ الاسلامی ص ( 692 ) ۔