اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

فوت شدہ پر رمضان ميں دن كے وقت جماع كا كفارہ ہونے كى صورت ميں اولاد كيا كرے ؟

سوال

ميرے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں اللہ ان پر ر حم كرے اور ان كا مال بھى ورثاء ميں تقسيم ہو چكا ہے، ميرى والدہ نے مجھے بتايا كہ آپ كے والد نے پچيس تيس برس قبل ميرے ساتھ رمضان المبارك ميں دن كے وقت ہم بسترى كر لى تھى، اور والدہ اس پر موافق نہيں تھى، والدہ نے مجھے يہ اس وقت بتايا جب وہ آپريشن كے بعد ہاسپٹل سے باہر آ رہى تھيں.
انہوں نے مجھے بتايا كہ ميں نے آپ كے والد كو كہا تھا كہ ايسا كرنا جائز نہيں، اسے چاہيے كہ وہ اس كے متعلق دريافت كرے، تو آپ كے والد نے كہا كہ اس نے توبہ كر لى ہے اور اللہ غفور رحيم ہے.
والدہ كہتى ہيں كہ شرم و حياء كى بنا پر انہوں نے نہ تو سوال دريافت كيا اور نہ ہى ہميں بتايا، والدہ اس كے كفارہ ميں دو ماہ كے روزے ركھنا چاہتى ہے ميں نے انہيں بتايا كہ اس واقعہ ميں ان كا كوئى قصور اور گناہ نہيں اس ليے آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، اس كے علاوہ يہ بھى ہے كہ والدہ كى صحت بھى ايسا كرنے كى اجازت نہيں ديتى، لہذا آپ بتائيں كہ ہمارى والدہ پر كيا لازم آتا ہے، اور ہمارے فوت شدہ والد كے متعلق اولاد ہونے كے ناطے ہم پر كيا لازم آتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر تو آپ كى والدہ كو رمضان المبارك ميں دن كے وقت جماع پر مجبور كيا گيا اور خاوند نے اسے ہم بسترى پر مجبور كيا تو آپ كى والدہ پر كفارہ نہيں ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے خطا و بھول چوك اور جس پر انہيں مجبور كيا گيا ہو معاف كر ديا ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2043 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اگر آپ كى والدہ اس پر راضى تھى تو اس پر بھى روزے كى قضاء اور كفارہ ہے.

رمضان المبارك ميں جماع كرنے والے شخص كے بارہ ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" اس پر ايك غلام آزاد كرنا واجب ہے، اگر اس كى استطاعت نہيں تو پھر وہ مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں ركھتا تو ساٹھ مسكينوں كو كھانا دے، ہر مسكين كو ايك مد گندم دے، اور اس كو اس روزے كى بھى قضاء كرنا ہو گى.

ليكن عورت نے اگر تو يہ كام راضى و خوشى كيا تو اس كا حكم بھى مرد والا ہے، اور اگر عورت كو ايسا كرنے پر مجبور كيا گيا ہے تو اس پر صرف روزے كى قضاء ہو گى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 302 ).

اور جب اس پر كفارہ واجب ہو اور آپ يہ كہہ رہے ہيں كہ وہ روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتى تو اس كو چاہيے كہ وہ ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلا دے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 1672 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں دن كے وقت رمضان ميں ہم بسترى كرنے كا كفارہ بيان كيا گيا ہے.

دوم:

اور آپ كے والد كے بارہ ميں يہ ہے كہ اس پر مسلسل دو ماہ كے روزے ركھنا واجب تھے، اور جس دن ميں اس نے ہم بسترى كى اس روزہ كى قضاء كرنا تھى، اور جبكہ وہ فوت ہو چكا ہے اور ايسا نہيں كيا اس ليے يا تو اس كى جانب سے كوئى روزے ركھے اور مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كى جانب سے اس كا ولى روزے ركھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1147 ).

اور يہ دو ماہ كے روزے ايك سے زيادہ اشخاص ميں تقسيم كرنا جائز نہيں، بلكہ صرف ايك ہى شخص مسلسل دو ماہ كے روزے ركھے تا كہ يہ صادق آئے كہ اس نے دو ماہ كے مسلسل روزے ركھے ہيں.

يا پھر اس كى جانب سے ہر دن ايك مسكين كو كھانا كھلا دو.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر ميت كے ذمہ دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا واجب ہوں، يا تو اس كے ورثاء ميں سے كوئى ايك شخص وہ روزے ركھے، يا پھر ہر ايك دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا دے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 453 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ اگر كوئى شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ رمضان كے فرضى روزے يا نذر يا كفارہ كے روزے ہوں تو اس كا ولى اس كى جانب سے جب چاہے روزے ركھے " انتہى

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 199 / 20 ).

اور شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس فوت شدہ شخص كے ذمہ رمضان المبارك كے روزے ہوں اور وہ تندرست ہو جانے كے باوجود روزے نہ ركھے تو اس كى جانب سے ہر روزے كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہے جتنے روزے ہوں اتنے ايام كھانا كھلايا جائے.

اور شيخ تقى الدين ابن تيميہ كے ہاں يہ ہے كہ: اگر اس كى جانب سے روزے ركھے جائيں تو كفائت كر جائينگے، اور يہ قوى الماخذ ہے " انتہى

ديكھيں: ارشاد اولى البصائر و الالباب ( 79 ).

اور يہ كھانا كھلانا تركہ ميں سے واجب ہے، اور اگر كوئى شخص كھلا دے اور اپنے مال سے ادائيگى كر دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب