جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ايك ہي برس ميں حج اور عمرہ كا اختلاف وہ اس طرح كہ ايك شخص كي جانب سے عمرہ اور دوسرے شخص كي جانب سے حج ادا كرے

سوال

ايسے شخص كےبارہ ميں كيا حكم ہے جوحج كے ليے جائے اور والدہ كي جانب سے عمرہ اور والد كي جانب سے حج كي نيت كرے ، اور آئندہ برس اس كے برعكس حج والدہ كي جانب سے اور عمرہ والد كي جانب سے ادا كرے تو كيا ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حج اور عمرہ دونوں عليحدہ عليحدہ عبادات ہيں، اور نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے انہيں ادا كرنے كي كيفيت بھي بيان بھي فرمائي كہ حج قران ہوتا ہے يا حج مفرد يا پھرعمرہ كوحج كے ساتھ ملاكرحج تمتع ، لھذا جوكوئي مثال كے طور پر اپني والدہ كي جانب سے عمرہ كا احرام باندھنا چاہتا ہے اور عمرہ سے حلال ہونے كےبعد حج اپنے والد كي جانب سے ادا كرنا چاہے تويہ جائز ہے اس كہ اعمال نيتوں پر منحصر ہيں اور ہر شخص كے ليے وہي ہے جواس نے نيت كي .

اللہ تعالي ہي توفيق بخشنے والا ہے اللہ تعالي ہمارے نبي صلي اللہ عليہ وسلم اور ان كي آل اور صحابہ كرام پر اپني رحمتيں نازل فرمائے .

ماخذ: اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء : ديكھيں فتاوي اللجنۃ ( 11/ 58)