اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تروایح پڑھانے والا امام وتر مؤخر کرنا چاہتا ہے

سوال

میں رمضان میں تروایح پڑھاؤں گا ، ہم آٹھ رکعات تراویح اورتین وترادا کریں گے انشاءاللہ ، تو کیانبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فعل کی وجہ سے مجھ پر سونے سے قبل وتر کی ادائيگي واجب ہے یا مستحب ؟
اگرمیں رات کوتھجد ادا کرنا چاہوں توکیا میرا تراویح سے وتروں کومؤخر کرنا افضل ہے تا کہ تھجد کے بعد ادا کرسکوں ، یا مجھے وتروں کی جماعت کروانی چاہیے اوراس میں ایک نفل کی نیت کرلوں اورمقتدی وتروں کی نیت کریں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان کے لیے مسحتب ہے کہ اس کی رات میں آخری نماز وتر ہوں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( رات کی نماز میں آخری وتر ادا کیا کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 998 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 751 ) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم استحباب اورافضلیت کے لیے ہے نہ کہ وجوب اورالزام کےلیے کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتروں کے بعد بیٹھ کر دورکعت ادا کیا کرتے تھے ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

صحیح یہ ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وترووں کے بعد بیٹھ کریہ دو رکعتیں وتروں کے بعد نماز کے جواز کےلیے ادا کی تھیں ، اورنفلی نمازبیٹھ کرادا کرنے کے جواز کےلیے پڑھی ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگي نہيں کی بلکہ ایک یا دو مرتبہ یا پھر کچھ بار ایسا کیا تھا ۔۔۔۔

بخاری اورمسلم وغیرہ میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اوربہت سے دوسرے صحابہ کرام کی روایات میں یہ صراحب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات میں آخری نماز وتر ہوا کرتی تھی ، اوراسی طرح صحیحین میں بہت ساری مشہوراحاديث پائي جاتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کوآخر میں پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے جن میں سے چند ایک ذيل میں ذکر کی جاتی ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( رات کی آخری نماز وترکو بناؤ ) ۔

اورایک حدیث میں فرمان نبوی کچھ اس طرح ہے :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے ، جب صبح ہونے کاخدشہ ہو تو ایک رکعت کےساتھ وترادا کرو ) ۔

اس کےعلاوہ کئي ایک احادیث ہیں جن میں یہ بیان ہوا ہے توان احادیث کے ہوتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں یہ گمان کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ وتروں کے بعد دو رکعت ادا کیا کرتے اوررات کے آخر میں یہی دو رکعتیں ادا کرتے ؟

بلکہ اس کا معنی وہی ہے جوہم بیان کرچکے کہ اس میں جواز کا بیان ہے ، اوریہی جواب صحیح بھی ہے ۔ ا ھـ

اورشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاوتر کے بعد دو رکعت ادا کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہا :

اس میں حکمت یہ ہے کہ : - واللہ اعلم - وتروں کے بعد لوگوں کے لیے نماز کے جواز کوبیان کیا جاسکے ۔ ا ھـ فتاوی اسلامیۃ ( 1 / 339 ) ۔

اوراگر آپ رات کو تھجد پڑھنا چاہيں توآپ کے لیے جماعت کے ساتھ وتر ادا کرنے جائز ہيں اوراس کے بعد جتنی نماز چاہیں آپ وتر لوٹائے بغیر دو دو رکعت کرکےادا کريں ۔

اوریہ بھی جائز ہے کہ آپ جماعت کے ساتھ وتر ادا نہ کریں بلکہ اسے رات کے آخری حصہ تک مؤخر کردیں ۔

اس میں آپ کو اپنے مقتدیوں کا خیال رکھنا ہوگا کہ اگر انہيں آپ کے لیے علاوہ کوئي اوروتر نہيں پڑھا سکتا اورآپ کے وتر نہ پڑھانے سے وہ وتر ادا ہی نہیں کرینگے یاپھر وہ اچھے طریقہ سے وتر ادا نہيں کرسکیں گے توپھر آپ کا ان کے ساتھ ہی وتر پڑھنا بہتر اورافضل ہے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :

جب میں نے سونے سے قبل وتر ادا کرلیے اور رات کے آخری حصہ میں بھی بیدار ہوجاؤں تو مجھے نماز کس طرح ادا کرنی چاہیے ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

جب آپ سونے سے قبل رات کے شروع میں ہی وتر ادا کرچکيں اوراللہ تعالی نے آپ کو رات کے آخری حصہ میں بیدار ہونے کی توفیق بخشی تو پھر آپ جتنی میسر ہوسکے دو دو رکعت کرکے نماز ادا کریں اوروتر نہ پڑھیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( ایک رات میں دو بار وتر نہيں ) ۔

اوراس لیے بھی کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر ادا کرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کیا کرتے تھے ۔ ا ھـ

دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 1 / 339 ) ۔

اورآپ کا یہ کہنا کہ میں ان کے ساتھ نفل کی نیت سے وتر ادا کرلوں اوروتروں کی نیت نہ کروں یہ ایک غیر مشروع عمل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے ) ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 472 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 749 ) ، دیکھیں المغنی لابن قدامۃ المقدسی ( 2 / 539 ) ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ وتروں کے علاوہ نفلوں میں دو رکعتوں سے کم ادائيگي نہیں ہوسکتی ۔ ا ھـ

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب