منگل 14 شوال 1445 - 23 اپریل 2024
اردو

شریعت کے مطابق وصیت کے الفاظ کیسے ہوں گے؟

سوال

انٹرنیٹ کی کچھ ویب سائٹس پر وصیت کے لیے عبارتیں موجود ہیں، تو میری چاہت ہے کہ ان الفاظ کی شرعی حیثیت مجھے معلوم ہو، تو کیا آپ کے پاس شریعت کے مطابق وصیت کے الفاظ ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر مسلمان پر حق ہے کہ اگر وہ اپنی کسی چیز کے بارے میں وصیت کرنا چاہتا ہو تو دو راتیں گزرنے سے بھی پہلے اپنی وصیت لازمی لکھ رکھے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2738) اور مسلم : (1627) نے روایت کیا ہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"اس حدیث میں وصیت کرنے کی ترغیب ہے، اور مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ شریعت میں وصیت کرنے کا حکم موجود ہے، لیکن ہمارا اور جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ وصیت کرنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ جبکہ داود اور دیگر اہل ظاہر کا اسی حدیث کی وجہ سے موقف ہے کہ وصیت کرنا واجب ہے۔ لیکن ان کے موقف کی اس حدیث میں دلیل ہی نہیں ہے؛ کیونکہ اس حدیث میں وصیت واجب ہونے کی کوئی صراحت نہیں ہے، لیکن اگر کسی انسان کے ذمہ قرض ہو، یا کسی کا کچھ اس نے دینا ہو، یا کسی کی امانت دینی ہو تو ایسے شخص پر وصیت کرنا واجب ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو اپنے معاملات میں محتاط اور چوکنا رہنا چاہیے اس لیے وصیت اس کے پاس لکھی ہونی چاہیے۔

چنانچہ مستحب ہے کہ فوری طور پر وصیت لکھ کر رکھے، اور صحت کی حالت میں لکھوائے، نیز اس پر گواہ بھی بنائے، وصیت میں وصیت سے متعلقہ دیگر ضروری چیزیں بھی لکھوائے، اور اگر وصیت کے حوالے سے حالات کے مطابق تازہ ترین چیزیں شامل کرنے کی ضرورت ہو تو انہیں بھی وصیت میں شامل کروا دے۔ تاہم فقہائے کرام کا یہ کہنا ہے کہ: وصیت میں اضافے کے لیے روز مرہ کی معمولی اور غیر اہم چیزوں کو مت لکھوائے۔" ختم شد

اس سے معلوم ہوا کہ وصیت کی دو قسمیں ہیں:
واجب وصیت: اس سے مراد ایسی وصیت ہے جس میں وصیت کنندہ کے ذمہ واجبات اور وصیت کنندہ کے دوسروں پر حقوق کا ذکر ہو، مثلاً: ادھار، قرض، یا وصیت کنندہ کے پاس موجود امانتیں وغیرہ ۔ اسی طرح وصیت کنندہ نے جو چیزیں دوسروں سے وصول کرنی ہیں انہیں لکھ کر رکھنا بھی واجب ہے۔ چنانچہ یہاں پر وصیت اس لیے واجب ہے کہ وصیت کنندہ کے مال کو تحفظ ملے اور اس نے جو ادائیگیاں کرنی ہیں ان کی ادائیگی بھی یقینی ہو۔

مستحب وصیت: اس سے مراد ایسی وصیت ہے جس میں وصیت کنندہ نے کوئی بھی نفل صدقہ وغیرہ کرنا ہو، مثلاً: انسان اپنی وفات کے بعد ایک تہائی یا اس سے کم مال کی کسی ایسے رشتہ دار کے لیے وصیت کرے جو کہ وارث نہیں ہے، یا کسی غیر رشتہ دار کے لیے بھی وصیت کر سکتا ہے۔ اسی مستحب وصیت میں فقرا اور مساکین یا رفاہی کاموں کے لیے وصیت کرنا بھی شامل ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ "فتاوى اللجنة الدائمة" (16/264) کا مطالعہ کریں۔

انسان اپنے اہل خانہ کو اپنے جنازے سے متعلقہ امور کے بارے میں بھی وصیت کر سکتا ہے، مثلاً: کون غسل دے گا اور کون جنازہ پڑھائے گا؟، اسی طرح اہل خانہ کو جنازے میں بدعات اور خود ساختہ چیزوں سے بچنے کی وصیت بھی کر سکتا ہے ، نیز انہیں یہ کہتے ہوئے بھی وصیت کر سکتا ہے کہ نوحہ سمیت دیگر ممنوعہ امور سے جنازے میں اجتناب کرنا ہے؛ خصوصاً ایسی صورت میں جب انسان کو خدشہ ہو کہ رشتہ دار جنازے میں غیر شرعی امور میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

اس کی دلیل صحیح مسلم: (121) کی روایت ہے کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے سکرات الموت میں فرمایا تھا: "پس جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے جنازے میں نوحہ کرنے والی اور آگ نہیں ہونی چاہیے۔"

اسی طرح جامع ترمذی: (986) ، اور ابن ماجہ: (1476) میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے کہ: "میں جس وقت فوت ہو جاؤں تو میری وفات کا اعلان مت کرنا، مجھے خدشہ ہے کہ یہ اعلان کہیں ممنوعہ نعی نہ ہو؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نعی سے منع کیا ہے۔" اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

مسند احمد: (10141) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: "میں جب فوت ہو جاؤں تو میری نعش پر خیمہ مت لگا لینا، اور نہ ہی میرے جنازے کے ساتھ شمع جلانا، اور مجھے میرے رب کے جلد سپرد کر دینا؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: (جس وقت کوئی نیک آدمی یا بندہ جنازے والی چار پائی پر رکھ دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: "مجھے آگے بھیج دو، مجھے آگے بھیج دو" اور جب کوئی برا بندہ جنازے کی چار پائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: "تمہارا ستیا ناس ہو ، تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو؟") " اس حدیث کو مسند احمد کی تحقیق میں شعیب ارناؤط نے حسن قرار دیا ہے۔

مستدرک حاکم (1409) میں سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا: (جس وقت میں فوت ہو جاؤں تو مجھ پر نوحہ کناں نہ ہونا؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نوحہ نہیں کیا گیا تھا۔) امام حاکم رحمہ اللہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ روایت صحیح الاسناد ہے، لیکن امام بخاری اور مسلم رحمہما اللہ نے اسے اپنی اپنی کتابوں میں روایت نہیں کیا۔ امام ذہبی رحمہ اللہ تلخیص المستدرک میں کہتے ہیں: یہ روایت صحیح ہے۔

چنانچہ مذکورہ بالا آثار اور دیگر روایات اس بات کے جواز پر دلالت کرتی ہیں کہ جنازے سے متعلقہ بعض امور یا نوحے سے باز رہنے یا دیگر ایسے امور کی وصیت کرنا شرعاً جائز ہے۔

تاہم وصیت کرنے کے لیے مخصوص الفاظ نہیں ہیں کہ انسان انہی لفظوں میں وصیت کرے بلکہ اپنی اور اہل خانہ کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے وصیت کرے، اور وصیت میں اپنے ذمے واجب الاداء اور دوسروں پر حقوق وصیت میں مذکورہ طریقے کے مطابق ذکر کرے۔

اہم بات یہ ہے کہ وصیت کے کوئی مخصوص الفاظ منقول نہیں ہیں، نہ ہی وصیت کرنا کوئی ضروری ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے "هذه وصيتي الشرعية" نامی پمفلٹ میں مذکور وصیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"مذکورہ پمفلٹ کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو شریعت سے متصادم ہو، لیکن ہر شخص کی طرف سے اس طرح وصیت لکھنے اور لوگوں میں تقسیم کرنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وصیت میں لکھی ہوئی عبارت کے مطابق وصیت کرنا مستحب عمل ہے، یا اسے خرید کر کسی ایسے شخص کو دینا جو وصیت کنندہ کی موت کے بعد اس کے معاملات سنبھالے ۔ حالانکہ اس سب کے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ جنازے کے احکامات فقہی کتابوں میں تفصیلات کے ساتھ بتلائے گئے ہیں، چنانچہ جسے جنازے کے احکامات جاننے کی ضرورت ہو تو وہ انہی کتابوں سے رجوع کر سکتا ہے، ان احکامات کو وصیت میں لکھنے اور پھر اسے لوگوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پھر ہمارے ملک [سعودی عرب] میں اللہ کا شکر ہے کہ جنازوں کے متعلق غیر شرعی کام نہیں ہوتے سب ہی سنت پر عمل پیرا ہیں تو یہاں اس کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (16/289)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب