جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اگر كسى عورت كو كسى شخص كا دين اور اخلاق پسند آ جائے تو كيا وہ اسے شادى كى پيشكش كر سكتى ہے ؟

سوال

ميرى عمر ستائيس برس ہے، اور الحمد للہ حافظ قرآن بھى ہوں اور قرآن مجيد كى معلمہ ہوں، اور شرعى علم حاصل كر رہى ہوں، ميں ايسى صفات كى مالكہ ہوں جس كى بنا پر بہت سارے نوجوان ميرا رشتہ طلب كرتے ہيں.
ليكن جتنے بھى ميرے ليے رشتے آئے ہيں دينى التزام كى بنا پر ميں نے سب رد كر ديے ہيں، ہر رشتہ كے انكار كى بنا پر اب مجھ پر گھر والوں كا بہت دباؤ ہے اور اس ليے بھى كہ ميں نے مرد و عورت كے اختلاط كى بنا پر سركارى ملازمت بھى ترك كر دى ہے، مجھ پر دباؤ اور بھى بڑھ گيا ہے.
ان آخرى ايام ميں ميرے گھر والے چاہتے ہيں كہ جس نوجوان كا بھى رشتہ آئے ميں اسے قبول كر لوں، اہم يہ ہے كہ ميں شادى كر لوں، اپنا قبيلہ چھوڑ كر دوسرے قبيلہ ميں شادى كرنا منع ہے، ميں نہ تو مال و دولت چاہتى ہوں اور نہ ہى مالدار يا صاحب منصب شخص، يا پھر كوئى وسيم نوجوان بھى نہيں چاہتى.
بلكہ ميں چاہتى ہوں كہ كوئى نيك و صالح نوجوان ہو جو اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى ميں ميرا ممد و معاون بن جائے، اور مجھے عفت و عصمت دے، تا كہ ميں اپنے گھر والوں كے ساتھ جس مشكل كا شكار ہوں جو ختم ہونے كا نام ہى نہيں ليتى اس سے نكلنا چاہتى ہوں، اس ليے ميں نے سوچا ہے كہ ميں خود ہى كسى ايسے نوجوان كا رشتہ طلب كروں جسے ہم جانتے بھى ہيں، جن كے ساتھ ہمارے سسرالى تعلقات قائم ہو جائيں، وہ نوجوان بااخلاق بھى اور صاحب دين بھى، اور حافظ قرآن بھى اور طالب علم بھى.
يہ اس طرح ہو كہ پورے ادب و احترام كے ساتھ اس نوجوان كو موبائل ميسج كيا جائے، ياد ركھيں كہ اس نوجوان كے ساتھ ميرا كبھى كوئى تعلق نہيں رہا، ليكن اس كا موبائل نمبر مجھے غلطى سے مل گيا، ميں اس موضوع ميں كسى تيسرے شخص كو نہيں لانا چاہتى،اور نہ ہى كسى اور فريق كو داخل كرنا چاہتى ہوں كيونكہ اس طرح دونوں طرف تنگ ہونگے.
اور پھر مجھے خدشہ ہے كہ يہ موضوع پھيل جائيگا اور ميں كوئى ايسا شخص نہيں پاتى جس پر اعتماد اور بھروسہ كروں جو ميرا راز افشاء نہ كرے.
برائے مہربانى پہلے تو آپ يہ بتائيں كہ اس كے بارہ ميں شرعى حكم كيا ہے ؟
اور يہ بھى بتائيں كہ اس طرح كا كام كرنے والى لڑكى كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
ايسى عورت كے بارہ مرد كى نظر كيسى ہوگى جو خود اپنے ليے رشتہ طلب كرتى ہے، اور آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ پر اپنى نعمت مكمل كرے اور آپ كے علم و ادب اور شرم و حياء ميں اور زيادتى فرمائے، اور ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كے ليے نيك و صالح خاوند ميسر كرے جس كے ساتھ آپ ايك نيك و صالح خاندان بنا سكيں.

آپ نے حرام اختلاط والى ملازمت چھوڑ كر بہت اچھا كام كيا ہے، اور آپ نے ايسے رشتے ٹھكرا كر بھى اچھا كام كيا ہے جو دين اور اخلاق كے مالك نہيں تھے، اور آپ نے اس نوجوان كے ساتھ خط و كتابت كرنے سے قبل سوال كر كے بھى بہت اچھا اقدام اٹھايا ہے.

دوم:

عقل و دانش ركھنے والے كے ہاں نہ تو يہ حرام ہے اور نہ ہى اسے عيب شمار كيا جاتا ہے كہ كوئى عورت اپنے آپ كو كيسى صاحب اخلاق اور صاحب دين شخص كے ساتھ شادى كے ليے پيش كرے، اور اگر كوئى شخص اس سے انكار كرتا ہے تو وہ شرعى اعتبار پر انكار نہيں كر رہا بلكہ اس نے تو معيار اور ميزان عادات اور رسم و رواج كو بنايا ہے، اور بعض اوقات تو عورتيں حسد كرتے ہوئے بھى اس سے انكار كرتى ہيں.

ثابت البنانى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس تھا اور ان كے پاس ان كى بيٹى بھى تھى انس رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

" ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پاس آئى اور اپنے آپ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر پيش كيا اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ كو ميرى ضرورت ہے ؟

تو انس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى كہنے لگى:

وہ كتنى قليل شرم و حياء كى مالكہ تھى، ہائے افسوس ! ہائے افسوس !

انس رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: وہ تجھ سے بہتر تھى اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں رغبت كى تو اپنے آپ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر پيش كر ديا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4828 ).

امام بخارى رحمہ اللہ نے باب باندھتے ہوئے كہا ہے:

" كسى نيك و صالح شخص پر عورت كا اپنے آپ كو پيش كرنے كے بارہ ميں باب "

واسوءتاہ كا معنى يہ ہے كہ: يہاں واو ندب كے ليے ہے اور سواءۃ قبيح اور فضيح فعل كو كہتے ہيں.

نيك و صالحہ عورت نے موسى عليہ السلام كے ساتھ شادى كى رغبت كى بنا پر يہ كہتے ہوئے پيش كيا جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

ان دونوں ميں سے ايك كہنے لگى اے ابا جى اسے ملازم ركھ ليجئے يقينا جسے آپ ملازم ركھيں وہ طاقتور بھى ہو اور ا مانتدار بھى القصص ( 26 ).

ظاہر يہى ہوتا ہے كہ وہ ہى تھى جسے اس كے والد نے موسى پر پيش كيا تھا جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

وہ كہنے لگے ميں چاہتا ہوں كہ دونوں بيٹيوں ميں ايك كا نكاح تيرے ساتھ كر دوں اس بات پر كہ تم آٹھ برس تك ميرى خدمت كرو القصص ( 27 ).

آپ كے اولياء كو يہ پيغام ہے كہ وہ اللہ سے ڈر جائيں اور براردى اور قبيلہ كا تعصب چھوڑ ديں، اور ايك نيك و صالح شخص تلاش كريں جس سے آپ كى شادى كر ديں، اور كم از كم صاحب دين اور اخلاق كے مالك شخص كا رشتہ نہ ٹھكرائيں، ديكھيں ايك نيك و صالح شخص اپنى بيٹى كو موسى عليہ السلام پر پيش كر رہا ہے، جبكہ اس لڑكى نے خود بطور تعريض اور توريتا پيشكش كى تھى.

اور ديكھيں ايك نيك وصالح عورت اپنے آپ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر پيش كر رہى ہے جس ميں اس نے كوئى توريہ اور تعريض نہيں كى بلكہ صراحتا پيشكش كى ہے يہ سب كچھ شرم و حياء كے منافى نہيں، بلكہ يہ تو مضبوط دين كى دليل ہے، اور عورت كى عقلمندى اور اس كے ولى كى وفا كى دليل ہے "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 30 / 50 ).

كسى مرد كے فضل و كرم اور نيك صلاح يا علم و شرف يا كسى اور دينى خصلت كى بنا پر اس ميں رغبت ركھتے ہوئے كسى عورت كا اپنے آپ كو اس پر پيش كرنا جائز ہے، اس ميں اس پر كوئى قدغن نہيں لگائى جائيگى بلكہ يہ تو اس كے فضل پر دلالت كرتا ہے.

امام بخارى رحمہ اللہ نے ثابت البنانى رحمہ اللہ كى حديث روايت كى ہے وہ كہتے ہيں كہ ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس تھا... پھر سابقہ حديث ذكر كى ہے. انتہى

سوم:

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كے ذكر كرنے كے بعد ہم آپ كو ان شاء اللہ وہى نصيحت كريں گے جو آپ كے ليے اسم سئلہ ميں فائدہ مند ہو اس ليے ہم آپ كو يہى كہيں گے كہ:

1 ـ آپ اس نوجوان كے ساتھ براہ راست خط و كتابت سے اجتناب كريں، آپ اسے كسى دوسرے نمبر سے بھى يہ خبر دے سكتى ہيں جسے وہ نہ جانتا ہو، اور نہ ہى وہ نمبر كسى كا مخصوص ہو، آپ كے ليے اس كے حصول ميں آسانى ہو گى.

اس طرح آپ اسے ميسج كريں كہ وہ اس نمبر سے كريں جس ميں آپ كے بارہ ميں بتايا گيا ہو اگر وہ آپ سے شادى كى رغبت ركھتا ہے تو يہ ميسج ايسا ہو كہ يہ كسى ايسے شخص كى جانب سے ہے جو دونوں كو جانتا ہے، اور وہ اسے نصيحت كرے كہ اس ميں كوتاہى سے كام نہ لے.

ہمارے خيال كے مطابق يہ اس سے براہ راست رابطہ كرنے سے بہتر رہےگا، كيونكہ ہو سكتا ہے معاملہ آپ كى مراد كے مطابق نہ چل سكے، اس ليے آپ كى پريشانى كا باعث بن جائے اور اس كى پريشانى كا سبب بھى.

اسى طرح انسان كى يہ بھى ضمانت نہيں كہ اب تو وہ دين و اصلاح كا مالك ہے، ليكن بعد ميں وہ آپ كو اس كى عار دلاتا پھرے.

اس ليے علماء كرام نے نيك و صالح شخص كى شرط لگائى ہے، اور پھر نہ تو اكيلا علم اصلاح ہے، اور نہ ہى حفظ قرآن اكيلا اصلاح كہلاتا ہے، بلكہ اصلاح تو يہ ہے كہ علم اور قرآن مجيد اور ان دونوں كے اخلاق كو اپنايا جائے.

2 ـ جب آپ ميسج كريں تو آپ كو يہ نہيں چاہيے كہ آپ ميسج اور خط و كتابت كو بےلگام كر ديں، بلكہ كسى معين امر ميں چھوٹا سا ميسج كريں، كيونكہ ہو سكتا ہے يہ ميسج اور خط و كتاب تكسى فتنہ و فساد كا باعث بن جائيں جس ميں آپ دونوں يا كوئى ايك پڑ جائے.

3 ـ آپ كسى كو بھى اس كے بارہ ميں مت بتائيں اور نہ ہى اس ميں كسى كو درميان ميں ڈاليں، ہم نے ديكھا ہے كہ آپ اس پر پہلے ہى متنبہ ہيں.

4 ـ ہو سكتا ہے اس شخص كے حالات شادى كے مناسب نہ ہوں، يا پھر اس كا رشتہ طے ہو اور وہ دوسرى شادى نہ كرنا چاہتا ہو، جب آپ كو اس كے معلق علم ہو جائے تو پھر آپ دوبارہ ايسا مت كريں، كيونكہ پھر ميسج كرنے كى كوئى ضرورت نہيں رہتى، كيونكہ آپ كى جانب سے شادى كى پيشكش كا مقصد حاصل ہو چكا ہے.

5 ـ جب اللہ تعالى نے اس سے آپ كى شادى آپ كے مقدر ميں نہيں ركھى تو آپ كو اس سے دل نہيں لگانا چاہيے، ان شاء اللہ يہ بات آپ كے ليے مخفى نہيں رہنى چاہيے كہ دل لگانے كا انجام اور خطرہ كيا ہے، اور كس طرح يہ چيز اللہ كى اطاعت ميں ركاوٹ پيدا كر ديتى ہے، اور حفظ قرآن اور دھرائى سے كيسے مشغول كر ديتى ہے، اور اسى طرح طلب علم سے بھى دور كر ديتى ہے، اس كے ساتھ اسے دل كى بيمارى اور معاصى و گناہ كى طرف ميلان كا نام بھى ديا گيا ہے.

6 ـ ہم آپ كو خط و كتابت اور ميسج جيسا اقدام اٹھانے سے قبل استخارہ كرنے كى نصيحت كرتے ہيں، اور اس كے بعد بھى آپ استخارہ كريں، كيونكہ مسلمان كو علم نہيں كہ دنيا و آخرت كى بھلائى اس كے ليے كہاں ہے، وہ جاہل اور عاجز ہے وہ اپنے پروردگار عالم و قادر سے اپنے ليے خير طلب كرتا ہے كہ اس كے ليے خير اختيار كر دے، اور اس كے ليے معاملہ ميں آسانى پيدا كرے جہاں بھى ہو اور اگر يہ شر اور برائى ہے تو اس سے دور كر دے.

7 ـ آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ اس كے علاوہ كوئى اور آپ كے ليے اس سے بھى بہتر ہو سكتا ہے، جب آپ اسے بتانے ميں شرعى طريقہ اختيار كرينگى اور اس پر اپنے آپ كو پيش كرنے ميں شريعت سے باہر نہيں جائينگى اور جب آپ اللہ سے استخارہ بھى كر ليں اور آپ كے درميان شادى نہ ہو سكے تو پھر آپ اللہ كى رحمت سے نا اميد مت ہوں، اور نہ ہى اللہ سے دعا كرنے ميں نااميد ہو جائيں، اور آپ سے شادى كے ليے آنے والے رشتہ ميں دين و اخلاق كو مد نظر ضرور ركھيں، اور اپنے گھر والوں كے دباء پر صبر و تحمل سے كام ليں.

كيونكہ ہر تنگى كے ساتھ آسانى ہے، يقينا تنگى كے ساتھ ضرور آسانى ہے الشرح ( 5 ).

ليكن اگر آپ كے محرم مردوں بھائى يا چچا يا پھر جو آپ كے قريب ہے اور آپ اس سے صراحتا اپنا موضوع بيان كر سكتى ہيں اور وہ آپ كے معاملہ كو چلا سكتا ہے جس طرح عام مرد اپنى بيٹيوں كى شادى جس سے وہ چاہتى ہوں كے معاملہ كو نپٹا سكتا ہو اور اس ميں كوئى تنگى و انكار نہ ہو تو يہ معاملہ آسان ہے، اور خطرے سے بھى دور اور ان شاء اللہ آپ كے دل كے ليے بھى راحت كا باعث ہوگا.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے ليے كوئى ايسا شخص مہيا كر دے جو آپ كى جانب سے اس معاملہ كو حل كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب