جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

کیا ابلیس ابھی تک زندہ ہے۔

سوال

اگر جن مرتے بھی ہيں اور زندگی گزارتے ہیں تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابلیس مرچکا ہے یا وہ ابھی تک زندہ ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ اللہ تعالی کا انسان کو پیدا کرنے میں یہ سنت اور طریقہ کہ وہ اسے آزمائش میں ڈالتا اور اسکا امتحان لیا ہے تاکہ اسے پاک صاف کردے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔

"اور اس لئے کہ اللہ تعالی کی تمہارے سینوں کے اندر کی چیز کا آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کا پاک کرنا مقصود تھا اور اللہ تعالی سینوں کے بھیدوں سے آگاہ ہے۔" آل عمرآن 154

اور اسی آزمائش میں سے ابلیس بھی ہے- اللہ اس پر لعنت کرے- جس کے ساتھ ہمیں آزمایا جارہا ہے تو اللہ تعالی نے اسے ایک وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے کہ وہ برائی کا حکم کرے اور نیکی سے روکے اور بھلائی اور اچھے کاموں سے باز رکھے اور شر کا حکم کرے تو جس نے اسکی بات مان لی اور بنی آدم سے بہت سے لوگ اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں تو وہ خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور ابلیس نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ یہ کام کرے گا۔

فرمان ربانی ہے۔

"اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے کہنے لگا اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو سوائے بہت تھوڑے لوگوں کے اپنے بس میں کرلونگا اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کا ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہوجائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے۔ ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا اور انہیں (جھوٹے) وعدے لے۔

ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہوتے ہیں بیشک میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں تیرا رب کارسازی کرنے والا کافی ہے" الاسراء 61-65

اور اللہ عزو جل کا ارشاد ہے :

"اور ہم نے تم کر پیدا کیا پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ اللہ تعالی نے فرمایا تو سجدہ نہیں کرتا تجھے کون سا امر مانع ہے جبکہ میں تجھے حکم دے چکا ہوں، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں آپ نے مجھے آگ سے اور اسے خاک سے پیدا کیا ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا تو آسمان سے اتر تجھے کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے تو نکل جا بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے، اس نے کہا کہ مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیجئے، اللہ تعالی نے فرمایا تجھے مہلت دی گئی اس نے کہا اسکے سبب کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ میں بیٹھوں گا۔

پھر ان پر حملہ کرونگا ان کے آگے سے بھی اور انکے پیچھے سے بھی اور انکی دائیں جانب سے بھی اور انکی بائیں جانب سے بھی اور آپ میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائیں گے، اللہ تعالی نے فرمایا یہاں سے ذلیل وخوار ہوکر نکل جا ان میں سے جو شخص تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم بھروں گا۔"الاعراف 11-18

تو ان آیات اور انکے علاوہ اور سے بھی یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اللہ تعالی نے ابلیس- اللہ اس پر لعنت کرے- کو ایک وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے اور انظار کامعنی تاخیر ہے تو اللہ تعالی نے اسے ایک معلوم دن تک ڈھیل دے رکھی ہے۔ جس کا علم اللہ تعالی کو ہی ہے کوئی اور نہيں جانتا۔

ابلیس نے تو اللہ تعالی سے قیامت تک کے لئے ڈھیل طلب کی تھی

ارشاد باری تعالی ہے۔

"کہئے اے میرے رب مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیجئے، اللہ تعالی نے فرمایا تجھے مہلت دی گئ ایک متعین وقت کے دن تک" ص80- 82

اور علماء نے "ایک متعین وقت تک" میں اختلاف کیا ہے۔

تو ان میں سے کچھ نے کہا ہے۔ کہ وہ لوگوں کے قبروں سے اٹھنے کا دن ہے جو کہ دوسرے صور کے پھونکنے کے بعد۔

اور کچھ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ایک ایسا وقت ہے جسے ابلیس کے لئے لکھا گیا ہے۔

اور اکثر اہل علم اس طرف ہیں کہ اس وقت معلوم سے مقصود اور مراد وہ دن ہے کہ جس دن پہلے صور کے پھونکنے کے بعد ساری مخلوقات کو موت آجائے گی اور وہ فنا ہوجائے گی اس سے دوسرا صور پھونکنے کے بعد مراد نہیں ہے کیونکہ اسکے بعد موت نہیں ہے۔

فرمان باری تعالی ہے۔

"اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمان وزمین والے سب بے ہوش ہوکر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ چاہے پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہوکردیکھنے لگ جائیں گے" الزمر/68

بیضاوی نے اسکی تفسیر میں کہا ہے کہ۔ (ایک وقت معلوم کے دن تک) جس میں تیری موت کا وقت اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہے۔ یا سب لوگوں کا ختم ہوجانا اور جمہور کے نزدیک وہ پہلے صور کے وقت ہے۔

دیکھیں۔۔ تفسیر بیضاوی (3/370)

اور قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت میں کہا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ اس سے مراد پہلا صور ہے یعنی جب تمام مخلوقات کو موت آجائے گی۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ وقت اللہ تعالی نے اپنے علم میں رکھا ہے اور اس سے ابلیس جاہل ہے تو ابلیس مرجائے گا اور بعد میں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے

"جو بھی اس زمین پر ہے وہ سب فنا ہونے والا ہے۔"

دیکھیں تفسیر قرطبی (10/27)

اور طبری نے اپنی تفسیر میں سدی سے بیان کیا ہے کہ "کہنے لگا اسے میرے رب مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیجئے، اللہ تعالی نے فرمایا تجھے مہلت دی گئ ایک متعین وقت کے دن تک" تو اسے قیامت کے دن تک مہلت نہیں دی گئ بلکہ ایک معلوم وقت کے دن تک مہلت دی گئی ہے اور وہ دن ہے جس دن پہلا صور پھونکا جائے گا تو آسمان وزمین میں جو بھی ہے سب بے ہوش ہو کر مر جائیں گے۔ (8/123)

اور امام شوکانی نے ان آیات کی تفسیر میں کہا ہے کہ (ایک مقرر دن تک) وہ جسے اللہ تعالی نے مخلوق کی تباہی کےلئے مقرر کیا ہے اور وہ آخری صور کے پھونکنے کے وقت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ پہلا صور ہے کیونکہ ابلیس نے بعث کے دن تک مہلت اس لئے مانگی تھی تاکہ موت سے بچ سکے اس لئے کہ جب اسے بعث کے دن تک مہلت مل جاتی تو وہ بعث سے پہلے نہ مرتا اور نہ بعث کے وقت تو اس موت سے بچ جاتا تو اسے ایسا جواب دیا گیا جو کہ مراد کو ختم کرے اور اسکا مقصد فوت ہوجائے اور وہ مقرر دن تک کی مہلت اور وہ ایسا دن ہے جسے اللہ تعالی کی علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

فتح القدیر (4/446)

تو یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ابلیس- اللہ تعالی اس پر لعنت کرے- ابھی تک زندہ ہے اور ابھی تک زمین میں فساد بپا اور لوگوں کو اللہ تعالی کے راستہ سے گمراہ کررہا ہے اور یہ کہ وہ قیامت تک نہیں رہے گا بلکہ اسکے لئے ایک وقت مقرر ہے جس میں اسے موت آئے گی اور موت کے اس وقت کو اللہ ہی جانتا ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"ہر جان نے موت کو پانا ہے"

اور فرمان ربانی ہے۔

"جو بھی اس زمین پر ہیں وہ فنا ہونے والے ہیں صرف تیرے رب کا چہرہ جو کہ عظمت اور عزت والا ہے باقی رہ جائے گا۔"

اور اسکے علاوہ بھی ایسے دلائل آئے کہ ابلیس- اللہ تعالی اس پر لعنت کرے- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زندہ تھا۔

جنگ بدر کے دن ابلیس سراقہ بن مالک کی شکل میں ظاہر ہوا ارشاد باری تعالی ہے۔

"اور جب شیطان انکے اعمال کو مزین کرکے دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ لوگوں میں سے کوئی بھی آج تم پر غالب نہیں آسکتا میں خود بھی تمہارا حمایتی ہوں لیکن جب دونوں جماعتیں نمودار ہوئيں تو وہ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا میں تم سے بری ہوں میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ميں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔" الانفال/48

ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ۔ جس کے لئے وہ آئے اور جس چیز کا انہوں نے ارادہ کیا تھا اس نے- اللہ اس پر لعنت کرے- اسے اچھا اور مزین کرکے دکھایا اور انہیں اس کا لالچ دیا کہ لوگوں میں سے آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور ان سے اس ڈر کو ختم کیا کہ انکے دشمن بنوبکر انکے اوپر حملہ نہیں کرینگے اور انہیں یہ کہا کہ میں تمہارا حمایتی ہوں اور یہ سب اس نے سراقہ بن مالک بن جعشم بنو مدلج کے سردار کی شکل میں ظاہر ہو کے کیا جو کہ اس طرف رہتے تھے اور یہ سب کـچھ ابلیس کی جانب سے تھا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔

"وہ ان سے عہد وپیمان کرتا اور امیدیں دلاتا ہے اور اسکے یہ عہد وپیمان دھوکے پر مشتمل ہیں"

ابن جریج کا کہنا ہے۔ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کے بارہ میں فرمایا: جب بدر کا دن تھا تو ابلیس اپنے لاؤ لشکر جھنڈے سمیت مشرکوں سے آملا اور مشرکوں کے دل میں یہ ڈالا کہ آج کے دن تم پر کوئی بھی غالب نہیں آسکتا اور میں بھی تمہارا حمایتی ہوں تو جب دونوں کی لڑائی شروع ہوئی تو شیطان نے فرشتوں کی مدد کا نظارہ کیا تو اپنی ایڑیوں پر پھر گیا- پیٹھ پھیر کر بھاگ گیا- اور کہنے لگا کہ میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ۔۔۔۔ الآیۃ تفسیر ابن کثیر (2/318)

اور جنگ احد کے دن بھی اسکا ظاہر ہونا –اللہ اس پر لعنت کرے- صحیح حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ ۔۔۔ جب احد کا دن تھا تو مشرکوں کو شکست ہوگئ تو شیطان نے اونچی آواز سے پکارا اے اللہ کے بندو تمہاری پچھلی جانب اور انکے اگلے حصے والے پلٹے وہ اور انکے پچھلی جانب والے لڑنا شروع ہوگئے تو حذیفہ نے دیکھا کہ انکا باپ یمان نوغے میں آچکا ہے تو کہنے لگے اللہ کے بندو میرا باپ میرا باپ تو اللہ کی قسم وہ مارنے سے نہ رکے حتی کہ قتل کردیا تو حذیفہ کہنے لگے اللہ تمہیں معاف فرمائے۔ عروہ کہتے ہیں کہ آخر تک حذيفہ میں اس فعل سے خیر باقی رہی حتی کہ وہ اس دنیا سے چلے گئے۔

اسے بخاری نے (3047) روایت کیا ہے۔

اور صحیح احادیث میں یہ وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلیس کو دیکھا ہے۔

ابو درداء سے صحیح حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو ہم نے سنا آپ کہہ رہے تھے میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں پھر کہا کہ میں تجھ پر اللہ کی لعنت کرتا ہوں آپ نے تین بار کہا اور اپنے ہاتھ کو آگے بڑھایا کہ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ہم نے نماز میں وہ بات سنی ہے جو آپ پہلے کبھی نہیں کہا کرتے تھے اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ آپ نے ہاتھ کو بڑھایا ہے؟

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا دشمن ابلیس ایک انگارہ لے کر آیا تھا تاکہ وہ اسے میرے چہرے پر مارے، تو میں نے تین مرتبہ کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں پھر میں نے تین بار کہا میں تجھ پر اللہ کی مکمل لعنت کرتا ہوں تو وہ پیچھے نہ ہوا پھر میں نے ارادہ کیا کہ اسے پکڑلوں اللہ کی قسم اگر ہمارے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو یہ بندھا ہوا ہوتا اور اہل مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے پھرتے۔

اسے مسلم نے (843) اور نسائی نے (1200) روایت کیا ہے-

اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہيں کہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے فجر کی نماز پڑھا رہے تھے اور وہ ان کے پیچھے تھے تو آپ نے قرآت کی تو آپ پر قرآت خلط ملط ہونے لگی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمانے لگے کاش کہ آپ مجھے اور ابلیس کو دیکھتے میں نے ہاتھ بڑھایا اور اسکی گردن یہاں تک دبائی کہ اپنی انگلیوں اور اسکے ساتھ والی انگلی کے درمیان تھوک کی ٹھنڈک (نمی) محسوس کرنے لگا اور اور اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی تو وہ مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتد بندھا ہوا ہوتا اور مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے پھرتے تو آپ میں سے جو کوئی یہ کرسکتا ہو کہ کوئی اسکے اور قبلہ کے درمیان حائل نہ ہو تو وہ کرے۔ (یعنی سترہ رکھے)

اسے احمد نے (1135) روایت کیا ہے۔

اور جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ بیشک ابلیس کا عرش پانی پر ہے اور وہ اپنے لشکر کی ٹولیاں روانہ کرتا تو وہ لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں اور اسکے ہاں سب سے بڑا وہ ہے جو سب سے زیادہ فتنہ ڈالے۔

تو ابلیس- اللہ تعالی اس پر لعنت کرے- ابھی تک زندہ ہے اور اس وقت مقررہ پر اسے موت آئے گی جس تک اللہ تعالی نے اسے مہلت دے رکھی ہے اور اہل علم کے اقوال میں سے یہی راجح ہے۔ اور وہ پہلے صور کے پھونکنے کے دن ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد