اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

زانى اور كافر مرد و عورت كى اولاد كى نسبت

101112

تاریخ اشاعت : 25-10-2008

مشاہدات : 7724

سوال

ميں نے عورت كا اپنے خاوند كے نام كى طرف منسوب ہونے كے متعلق جواب پڑھا ہے اور ميں يہ سمجھى ہوں كہ ايسا جائز نہيں، اب ميں يہ جاننا چاہتى ہوں كہ اگر كوئى عورت اسلام قبول كر لے اور وہ اصل ميں اپنى والدہ كى طرف منسوب ہو تو كيا اس كے ليے ايسا جائز ہے كہ وہ خاوند كا نام اپنے ساتھ لگا لے؛ كيونكہ اس كى ولادت كے وقت اس كے والدين نے آپس ميں شادى نہيں كى تھى، اور اس كے ليے والد كا نام اپنے ساتھ لگانا ممكن نہيں؛ كيونكہ وہ اب زندہ نہيں ہے. ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رسولوں پر اللہ تعالى كى نازل كردہ سب شريعتوں ميں زنا حرام ہے، اور دين اسلام اسلام قبول نہ كرنے والے دوسرے اديان كے لوگوں كا نكاح دو شرطوں كے ساتھ برقرار ركھتا ہے:

پہلى شرط:

وہ نكاح ان كى شريعت كے موافق ہو.

دوسرى شرط:

وہ عقد كا معاملہ ہمارے پاس نہ لے كر آئيں.

شيخ اسلام ابن تيميہ كہتے ہيں:

" اصحاب مالك اور شافعى اور اصحاب احمد مثلا قاضى ابو يعلى اور ابن عقيل اور متاخرين نے بيان كيا ہے كہ كفار كے نكاح ميں ان كى عادات كى طرف لوٹا جائيگا، جسے وہ آپس ميں نكاح شمار كرتے ہوں جب وہ اسلام قبول كر ليں اور ہمارے پاس مقدمہ لے كر آئيں تو اس پر انہيں برقرار ركھنا جائز ہے، جبكہ وہ كسى ممانعت پر مشتمل نہ ہو، اور اگر وہ اسے نكاح نہ سمجھتے ہوں تو اسے برقرار ركھنا جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 29 / 12 ).

اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر شريعت اسلاميہ كے مطابق نكاح صحيح ہو تو وہ صحيح ہے، اور اگر ـ شريعت اسلاميہ كے اعتبار سے ـ نكاح فاسد ہو تو ان كا نكاح دو شرطوں كے ساتھ برقرار رہے گا:

پہلى شرط:

وہ اس نكاح كو اپنى شريعت ميں صحيح سمجھتے ہوں.

دوسرى شرط:

وہ اسے ہمارے پاس نہ لائيں.

اگر وہ اسے صحيح نہ سمجھيں تو خاوند اور بيوى كے درميان جدائى كرا دى جائيگى، اور اگر وہ اسے ہمارے پاس فيصلہ كے ليے لائيں تو ہم ديكھيں گے كہ اگر وہ عقد نكاح سے پہلے لائيں تو ہم اپنى شريعت كے مطابق عقد نكاح كرينگے، اور اگر عقد كے بعد ہو تو ہم يہ ديكھينگے كہ اگر عورت اس وقت مباح ہو تو ہم اس عقد كو برقرار ركھينگے، اور اگر مباح نہ ہو تو ہم ان دونوں كے درميان تفريق كر دينگے.

ان اشياء كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں كفار نے اسلام قبول كيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اپنى بيويوں كے ساتھ ہى باقى ركھا جو دور جاہليت ميں ان كى بيوياں تھيں، اور انہيں كچھ نہيں كہا، تو يہ اس كى دليل ہے كہ اسے اصل پر باقى ركھا جائيگا. انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 239 - 240 ).

اور رہا زنا اور جسے دوستى كے تعلقات كا نام ديا جاتا ہے يہ سب كچھ ہمارى اور ان كى شريعت ميں باطل ہے، اور يہ اس غلط عادات كا نتيجہ ہے جو ان كے سلوك اور معاشرے ميں پائى جاتى ہيں.

مسلم شريف ميں براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ سے زنا كرنے والے يہوديوں كو رجم كرنے كا واقع مروى ہے، كہ كس طرح انہوں نے تورات ميں تحريف كى اور اللہ تعالى كے نازل كردہ احكام كو كس طرح تبديل كيا ليكن انہوں نے زنا كو مباح نہيں كيا بلكہ اس كى سزا ميں تحريف كرتے ہوئے رجم كے بدلے اس كا چہرہ سياہ كر كے كوڑے مارنے ميں تبديل كر ديا.

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1700 ).

اور نصارى كے ہاں بھى يہ اسى طرح ہے، جيسا كہ انجيل متى ( 19 / 18 ) ميں درج ہے:

يسوع كا كہنا ہے: تم نہ تو قتل كرو، اور نہ ہى زنا كارى كے مرتكب ٹھرو، اور نہ ہى چورى كرو، اور نہ جھوٹى گواہى دو "

اور انجيل مرقس ( 10 / 19 ) اور انجيل لوقا ( 18 / 20 ) ميں درج ہے: تم وصيت كو جانتے ہو: نہ تو زنا كا ارتكاب كرو، اور نہ ہى قتل كرو، اور نہ جھوٹى گواہى دو "

اس ليے ہم كہتے ہيں اگر تو يہ دونوں والدين شادى شدہ تھے ـ چاہے وہ عيسائيت يا يہوديت كا مذہب ركھتے تھے ـ تو ان كے نكاح كو برقرار ركھا جائيگا، اور ان كى بيٹى كو باپ كى طرف منسوب كيا جائيگا، ليكن اگر وہ بيٹى غير موثوق عقد كے تعلقات سے پيدا ہوئى، بلكہ زنا كے تعلقات سے پيدا ہوئى ہو تو اسے زانى كى طرف منسوب نہيں كيا جائيگا، بلكہ وہ اپنى ماں كى طرف منسوب ہو گى جيسا كہ اب اس سوال ميں اس لڑكى كا واقع ہے.

اور ہمارى شريعت مطہرہ ميں سب علماء اس پر متفق ہيں كہ زنا كى اولاد كا زانى سے الحاق نہيں كيا جائيگا، جب تك كہ زانى اس كا الحاق طلب نہ كرے، بلكہ جمہور اہل علم تو يہ كہتے ہيں كہ اگر زانى چاہے بھى تو اسے زانى كى طرف منسوب نہيں كيا جائيگا.

اور مسئلہ يہ نہيں كہ زانى اب بقيد حيات نہيں ـ جيسا كہ سوال ميں بيان ہوا ہے ـ بلكہ مسئلہ يہ ہے كہ ان دونوں كے تعلقات شادى والے نہ تھے اور اس غلط تعلقات كے نتيجہ ميں وہ بچى پيدا ہوئى تھى.

اور ہمارى شريعت مطہرہ ميں بيٹے كو باپ كے علاوہ كسى اور طرف منسوب كرنے كىحرمت وارد ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

لے پالكوں كو ان كے ( حقيقى ) باپوں كى طرف نسبت كر كے بلاؤ اللہ كے نزديك پورا انصاف يہى ہے پھر اگر تمہيں ان كے ( حقيقى ) باپوں كا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دينى بھائى اور دوست ہيں، تم سے بھول چوك ميں جو كچھ ہو جائے اس ميں تم پر كوئى گناہ نہيں البتہ گناہ اس ميں ہے جس كا ارادہ تم دل سے كرو اللہ تعالى بڑا ہى بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 5 )

اور ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے سنا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرما رہے تھے:

" جو شخص بھى جانتے بوجھتے اپنى نسبت باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف كرے تو يہ كفر كے علاوہ كچھ نہيں، اور جو شخص كسى قوم ميں سے ہونے كا دعوى كرے اور وہ ان ميں سے نہ ہو تو وہ اپنا ٹھكانہ جہنم ميں بنا لے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3317 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 61 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بعض شارحين كا كہنا ہے: يہاں مطلقا كفر بيان كرنے كا سبب يہ ہے كہ يہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے، گويا كہ وہ يہ كہہ رہا ہے اللہ تعالى نے مجھے فلاں كے پانى ( نطفہ ) سے پيدا كيا ہے، حالانكہ ايسا نہيں؛ كيونكہ وہ تو كسى دوسرے سے پيدا شدہ ہے.

ديكھيں: فتح البارى ( 12 / 55 ).

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سب سے بڑا جھوٹ اور بہتان يہ ہے كہ آدمى اپنے باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف نسبت كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3318 ).

اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

" جس كسى نے بھى اپنے باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف نسبت كى تو اس پر جنت حرام ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4072 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 63 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

زنا سے پيدا شدہ بچہ ـ چاہے زنا كرنے والے مسلمان ہوں يا غير مسلم ـ زانى كى طرف منسوب نہيں ہو گا، بلكہ وہ اپنى ماں كى جانب منسوب ہو گا، چنانچہ يہ نئى مسلمان بہن جس حالت ميں ہے وہ صحيح ہے، اور اگر يہ ممكن نہ ہو كہ وہ عورت كى طرف نہيں بلكہ مرد كى طرف ضرور منسوب ہو تو پھر اس كے ليے ـ ضرورت كى بنا پر ـ ممكن ہے كہ كسى غير معين اور غير معروف آدمى كىطرف منسوب ہو جائے، بلكہ وہ كوئى مختلف مركب نام اختيار كر كے اس كى طرف منسوب ہو جائے، اور اس كے ليے خاوند كى طرف منسوب ہونا جائز نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب