اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

موبائل يا ويڈيو كيمرہ كے ساتھ تصوير بنا كر كمپيوٹر ميں منتقل كرنا حكم

101257

تاریخ اشاعت : 19-04-2008

مشاہدات : 9063

سوال

ويڈيو اور فوٹو گرافى كے متعلق ميرے دو سوال ہيں:
كيا ويڈيو يا فوٹو كو كمپيوٹر يا كسى بھى الكٹرانك آلہ پر پيش كرنا تصوير شمار ہوتا ہے ؟
اور اگر تصوير نہيں تو كيا انہيں ديكھنے كے ليے كوئى شرطيں ہيں ؟
كيا آپ مجھے اسے جائز اور ناجائز قرار دينے والے علماء كرام كے ناموں كى لسٹ فراہم كر سكتے ہيں، اس ميں دلائل كا بھى اضافہ ہونا چاہيے ؟
اس موضوع كے متعلق ميں نے آپ كے بہت سارے جوابات كا مطالعہ كيا ہے، ليكن ميں ابھى تك حيران ہوں، اس ليے اس سوال كا جواب دينے پر ميں آپ كا ممنون و مشكور رہونگا.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

انسان، پرندے اور حيوان وغيرہ ذى روح كى تصاوير بنانى حرام ہے، چاہے يہ فوٹو گرافى اور كيمرہ كے ذريعہ ہى ہو، علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے، مزيد آپ سوال نمبر ( 10668 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

وہ تصاوير حرام ہيں جو ثابت اور پرنٹ شدہ ہوں اور نظر آئيں جنہيں محفوظ كرنا ممكن ہو، ليكن وہ تصاوير جو ٹيلى ويژن يا ويڈيو يا موبائل ميں سكرين پر ظاہر ہوتى ہيں وہ حرام تصاوير كا حكم نہيں ركھتيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" موجودہ نئے طريقہ سے تصوير كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

نہ تو اس تصوير كا كوئى مشہد ہو اور نہ ہى مظہر، جيسا كہ مجھے ويڈيو كى ريل ميں موجود تصاوير كے متعلق بتايا گيا ہے، تو اس كو مطلقا كوئى حكم حاصل نہيں، اور نہ ہى مطلقا يہ حرمت ميں داخل ہوتا ہے، اس ليے جو علماء كاغذ پر فوٹو گرافى سے منع كرتے ہيں ان كا كہنا ہے: اس ميں كوئى حرج نہيں، حتى كہ يہ سوال كيا گيا:

آيا مساجد ميں ديے جانے والے دروس اور ليكچر كى تصوير بنانى جائز ہے ؟

تو اس كے جواب ميں رائے يہى تھى كہ ايسا نہ كيا جائے، كيونكہ ہو سكتا ہے يہ چيز نمازيوں كے ليے تشويش كا باعث ہو، اور ہو سكتا ہے منظر بھى لائق نہ ہو.

دوسرى قسم:

كاغذ پر موجود تصوير.......

ليكن يہ ديكھنا باقى ہے كہ: جب انسان مباح تصوير بنانا چاہے، تو اس ميں مقصد كے اعتبار سے پانچ احكام جارى ہونگے، لہذا اگر اس نے كسى حرام چيز كا قصد كيا تو يہ حرام ہوگى، اور اگر اس سے واجب مقصود ہو تو يہ واجب ہے، كيونكہ بعض اوقات تصوير واجب ہو جاتى ہے، اور خاص كر متحرك تصوير، مثلا جب ہم ديكھيں كہ كوئى شخص جرم كر رہا اور اس جرم كا تعلق حقوق العباد سے ہے يعنى وہ كسى كو قتل كر رہا ہے اور ہم اس كو تصوير كے بغير ثابت ہى نہيں كر سكتے، تو اس وقت تصوير بنانى واجب ہوگى.

اور خاص كر ان مسائل ميں جو معاملات كو مكمل كنٹرول كرتے ہيں، كيونكہ وسائل كو احكام مقاصد حاصل ہيں، اگر ہم اس خوف اور خدشہ كى بنا پر يہ تصوير بنائيں كہ كہيں مجرم كے علاوہ كسى اور كو اس جرم ميں نہ پھنسا ديا جائے تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں بلكہ تصوير بنانا مطلوب ہو گا، اور اگر تفريح كى بنا پر تصوير بنائى جائے تو بلاشك و شبہ يہ حرام ہے. انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 197 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا كيمرہ يا ٹيلى ويژن كى تصوير جائز ہے، اور كيا ٹى وى ديكھنا خاص كر خبريں ديكھنا جائز ہيں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" كيمرہ يا دوسرے آلات تصوير كے ساتھ ذى روح كى تصوير اتارنى جائز نہيں، اور نہ ہى ذى روح كى تصاوير باقى ركھنا جائز ہيں، صرف ضرروت والى مثلا شناختى كارڈ يا پاسپورٹ والى تصوير اتروانى اور اسے ركھنا جائز ہے، كيونكہ اس كى ضرورت ہے.

ليكن ٹى وي ايك ايسا آلہ ہے جسے فى نفسہ كوئى حكم حاصل نہيں، ليكن اس كے استعمال كے اعتبار سے حكم ہو، اس ليے اگر تو يہ حرام يعنى گانے اور گندى فلميں اور ڈرامے ديكھنے، اور پرفتن تصاوير ديكھنے، اور جھوٹ و بہتنا الحاد اور حقيقت كو توڑ موڑ كر بيان كرنے اور فتن و فساد كو ابھارنے والے پروگرام ديكھنے كے استعمال ہو تو يہ حرام ہے.

اور اگراسے خير و بھلائى مثلا قرآن مجيد كى تلاوت اور حق بيان كرنے اور امر بالمعروف و النہى عن المنكر جيسے پروگرام ديكھنے ميں استعمال كيا جائے تو يہ جائز ہے.

اور اگر اسے دونوں قسم كے پروگراموں كے ليے استعمال كيا جائے تو پھر اسے حرام كا حكم ہى ديا جائيگا، چاہے دونوں چيزيں برابر ہوں، يا پھر برائى والى جانب غالب ہو" انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 458 ).

حاصل يہ ہوا كہ: ويڈيو يا موبائل سے تصوير لے كر اسے كمپيوٹر وغيرہ دوسرے آلات ميں داخل كرنا حرام تصوير كے حكم ميں نہيں آتا.

سوم:

اور ويڈيو يا كمپيوٹر يا موبائل ميں موجود تصاوير كو ديكھنے كے بارہ ميں گزارش يہ ہے كہ: اگر يہ تصاوير حرام پر مشتمل نہ ہوں تو انہيں ديكھنے ميں كوئى حرج نہيں، حرام كى مثال يہ ہے كہ: مرد غير محرم عورتوں كى تصويريں ديكھيں، يا پھر عورت كا عورتوں كى ايسى تصاوير ديكھنا جو پرفتن اعضاء ننگے كيے ہوں، يا پھر ان تقريبات اور محفلوں كى تصاوير ديكھنا جس ميں مرد و عورت كا اختلاط ہو، اور فتنہ پھيلے، كيونكہ اسے ديكھنا حرام ہے، اور اسى طرح جب ويڈيو ميں موسيقى اور گانا بجانا شامل ہو تو بھى ديكھنا حرام ہے.

شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" ٹى وى يا ويڈيو كے ذريعہ تصوير ديكھنا بھى برائى ميں شامل ہے، ان پرفتن تصاوير كو ديكھنا اور اسے ديكھ راحت محسوس كرنا بھى برائى ہے، وہ تصاوير ويڈيو اور ٹى وى وغيرہ كے ذريعہ فلموں ميں دكھائى جاتى ہيں، جن ميں بےپردہ عورتيں پيش كى جاتى ہيں، اور خاص كر وہ فلميں جو دوسرے ممالك سے پيش كى جاتى ہيں، اور جسے آج كل ڈش كہا جاتا ہے كے ذريعہ براہ راست پيش كيا جا رہا ہے اللہ كى قسم يہ فتنہ ہے.

ايسا فتنہ كہ جو بھى ان تصاوير كو ديكھتا ہے خطرہ ہے كہ اس فاحشہ اور زانى كى تصوير اس كے دل ميں گھر كر جائے، يا پھر اس كى آنكھوں كے سامنے سكرين پر جو فحش كام ہو رہا ہے ديكھنے والا اس تك پہنچنے كا طريقہ ڈھونڈتا پھرے، اور اپنى شہوت پورى كرے بغير كوئى چارہ نہ ہو اور وہ خواہشات ميں پڑ جائے، جو فحش كام ميں پڑنے كا سبب اور باعث بنے.

تو جب وہ يہ تصاوير ديكھ رہا ہے اس وقت اس كے ساتھ ايمان نہيں رہتا چاہے وہ تصوير ہاتھ سے بنى ہوں يا پھر اخبارات اور ميگزين ميں چھپى ہوئى ہوں، يا پھر براہ راست ڈش پر دكھائى جا رہى ہو، يا پھر فلموں وغيرہ ميں پيش كى جا رہى ہوں.

يہ گناہ و معاصى اور حرام كام بہت زيادہ پھيل چكے ہيں، اور اس كى كثرت ہو چكى ہے، اور يہى نہيں بلكہ يہ دوسرے فحش كام كى بھى دعوت ديتا ہے، جب عورت ان غير محرم مردوں كو ديكھتى ہے تو پھر اس كا دل فحاشى كى طرف مائل ہونے لگےگا.

اور جب عورت ان بےپرد اور فاحشہ عورتوں كئى قسم كے فتنہ و فساد ميں پڑى ہوئى عورتوں كو ديكھے گى تو خطرہ ہے كہ دوسرى عورتيں اس كى نقل كرتے ہوئے وہ بھى ايسا كرينگى، تو يہ عورت خيال كريگے كى وہ ان عورتوں سے زيادہ عقلمند ہے، اور اس سے طاقت و قوت ميں بہتر ہے، تو يہ اس كے حياء كا پردہ اتارنے كا باعث بن جائے اور اپنا چہرہ ننگا كر بيٹھے، اور اپنى زيبائش و زينت اجنبى اور غير محرم مردوں كے سامنے ظاہر كرنے لگے، اور فتنہ و خرابى كا باعث بن جائے، اس سے بڑھ كر اور كيا فتنہ ہو گا " انتہى

ماخوذ از: شيخ ابن جبرين كى ويب سائٹ.

شيخ نے جو كچھ ٹى وى كے بارہ ميں كہا ہے ويڈيو كے بارہ ميں بھى وہى كہا جائيگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب