اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

يادگيرى كے ليے تصاوير بنانا

10668

تاریخ اشاعت : 09-03-2008

مشاہدات : 13679

سوال

بعض لوگ كہتے ہيں كہ تصويريں بنوانا اور انہيں گھر ميں ركھنا جائز نہيں كيا ان كى يہ كلام صحيح ہے ؟
ہم يہاں شمالى امريكہ اور يورپى ممالك ميں مثال كے طور پر روزانہ يہ سنتے ہيں كہ بچے گم ہو گئے، اور ان كى نئى تصوير نہ ہونے سے تو انہيں تلاش كرنا مشكل ہو جائيگا، اس بنا پر آپ سے گزارش ہے كہ آپ ميرے ليے حرام تصاوير كى وضاحت فرمائيں، اور كونسى تصاوير جائز ہيں ؟
كيونكہ ميں ياد گيرى كے ليے اپنے بچوں كى تصاوير بنا كر اپنے گھر ميں ركھنا چاہتا ہوں، تو كيا ميں اس سے گنہگار تو نہيں ہونگا آپ سے گزارش ہے كہ ميرے سوال كا جواب دلائل كے ساتھ ديں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصل ميں ہر ذى روح چاہے وہ انسان ہو يا حيوان كى تصوير حرام ہے، چاہے يہ تصوير مجسمہ كى شكل ميں ہو يا پھر كاغذ يا كپڑے پر نقش كى گئى ہو، يا پھر ديوار وغيرہ پر بنائى گئى ہو، يا پھر كيمرہ كے ذريعہ فوٹو اتارى گئى ہو، كيونكہ صحيح احاديث ميں اس سے منع كيا گيا ہے، اور ايسا كرنے والے كو شديد عذاب كى وعيد سنائى گئى ہے، كيونكہ اس كے سامنے كھڑا ہونے، اور اس كے ليے عاجزى كرنے، اور اس سے تقرب اور اس كى تعظيم كے ساتھ شرك كا ذريعہ ہے، اس ليے كہ يہ سب كچھ صرف اللہ وحدہ لا شريك كے لائق ہے، اور پھر تصوير ميں اللہ تعالى كے پيدا كرنے ميں مقابلہ بھى ہوتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ كچھ فتنہ و فساد اور خرابياں بھى ہيں مثلا اداكاروں اور ننگى عورتوں كى تصاوير اور جسے ملكہ جمال كا نام ديا جاتا ہے اس كى تصوير.

جن احاديث ميں ا نكى حرمت اور اس عمل كو كبيرہ گناہ قرار ديا گيا ہے ان ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث شامل ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جس نے دنيا ميں كوئى تصوير بنائى اسے روز قيامت اس ميں روح ڈالنے كا مكلف كيا جائے گا، اور وہ اس ميں روح نہيں ڈال سكےگا "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر مصور جہنم ميں جائيگا، اس نے جتنى بھى تصويريں بنائى ہونگى ہر ايك كے بدلے ايك جان بنائى جائيگى جس سے اسے جہنم ميں عذاب ديا جائيگا "

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں: اگر تم نے ضرور تصوير بنانى ہے تو پھر درختوں اور اس كى تصوير بناؤ س ميں روح نہيں ہے "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

تو ان احاديث كا عموم ہر ذى روح كى مطلق تصوير بنانے كى حرمت پر دلالت كرتا ہے...

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 456 - 457 ).

جب شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے تصاوير كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

اس غرض كى بنا پر تصوير حرام ہے، اور جائز نہيں، اس ليے كہ ياد داشت كے ليے تصويريں ركھنا حرام ہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

اس گھر ميں فرشتے داخل نہيں ہوتے جس گھر ميں تصوير ہو "

صحيح بخارى بدء الخلق حديث نمبر ( 2986 ).

اور جس گھر ميں فرشتے داخل نہ ہوں وہاں كوئى خير و بھلائى نہيں.

ديكھيں: فتاوى منار الاسلام ( 3 / 759 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد