جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

یوگا کی حقیقت اور اس کا حکم

سوال

کیا ہمارے لیے بطور مسلمان خواتین یوگا کرنا جائز ہے، حالانکہ یہ اصل میں ہندی عبادت کی ایک قسم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یوگا ورزش کرنے کے حکم پر معاصر لوگوں کے مختلف اقوال ہیں ۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے، بعض کا خیال ہے کہ یہ بغیر کسی تحفظات کے جائز ہے۔ جبکہ کچھ نے اس کے بعض آسن یعنی پوز کو جائز اور دیگر کو ناجائز کہا ہے چنانچہ انہوں نے شریعت کے مطابق آسنوں کی اجازت دی اور جو شریعت کے خلاف ہیں ان سے منع کیا۔

ہماری دانست کے مطابق ان میں سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا کہ یہ عمل اصولی طور پر بت پرست ہندو عقائد پر مبنی ہے اور پھر بدھ مت سے تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا جن لوگوں نے ہر صورت میں اس کی اجازت دی، انہوں نے اس میں سے ہر وہ چیز ختم کر دی ہے جس کا عقائد اور روحانی معاملات سے تعلق ہے، اور اس کے جواز کا فیصلہ اس بنیاد پر دیا کہ یہ محض جسمانی ورزش ہے۔

اور جن لوگوں نے اسے منع کیا انہوں نے اس کی اصل مذہبی بنیاد اور مشرکوں سے مشابہت کی وجہ سے منع قرار دیا، نیز اس سے جسم کو پہنچنے والے نقصان اور دیگر وجوہات کی بنا پر اسے منع کہا ہے۔

جہاں تک وہ لوگ جو اس کی مختلف اقسام میں فرق کرتے ہیں تو ان کی رائے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ جس چیز کو انہوں نے مستثنی قرار دیا ہے وہ مستثنی ہوتی ہی نہیں، نیز عوام الناس اس کی جائز اور ناجائز صورتوں کی تمیز نہیں کر پاتے۔

پس یہ روحانی اور جسمانی ورزش ہے جس کا اصل مقصد فنا ہونا اور اللہ تعالی سے تعلق ہے۔

جیسے کہ محمد عبد الفتاح فہیم (ص 19) کی کتاب "الیوجا والتنفس" (یوگا اور سانس لینا) میں لکھتے ہیں:

"مقدس ہندوستانی زبان میں یوگا کا مطلب خدا کے ساتھ اتحاد اور رابطہ ہے، یعنی جسم، دماغ اور خدا کے درمیان اتحاد؛ جو انسان کو علم اور حکمت حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے اور زندگی کے بارے میں انسانی علم کو ترقی دے کر اس کی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے۔ اسے فرقہ واریت، مذہبی جنونیت اور تنگ نظری سے بچاتا ہے۔ اس سے وہ جسمانی اور روحانی طور پر اطمینان کی زندگی گزارتا ہے۔"

جمیل صلیبا کی "المعجم الفلسفی"(2/590) میں ہے کہ:

"یوگا سنسکرت کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اتحاد۔ اس کا استعمال ایک قسم کی روحانی مشق کے لیے کیا جاتا ہے یہ مشق ہندوستان کے یوگیوں نے عالمگیر روح کے ساتھ اتحاد کے لیے اپنائی، لہذا یوگا کوئی فلسفی مذہب نہیں ہے۔ بلکہ یہ کچھ مشقیں کرنے کا فنی طریقہ ہے جو روح کو جسمانی اور ذہنی ثقل سے آزاد کر کے اسے حقیقت کی طرف قدم بہ قدم لے جاتا ہے۔ یوگی: اس شخص کو کہتے ہیں جو اس طریقے پر عمل کرے۔

دونوں اقتباسات " مظاهر التشبه بالكفار في العصر الحديث وأثرها على المسلمين "سے لیے گئے ہیں۔

یوگا کی تعریف میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے اتحاد، یعنی روح کے ساتھ انسان کا اتحاد، جو عالمگیر روح ہے، اس روح سے ان کی مراد ذات باری تعالی ہے ۔ اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ یوگا کو وحدت ادیان کے لیے استعمال کرنا مقصود ہے!!

چنانچہ ڈاکٹر احمد شلبی –ہندوستانی ادیان کے ماہر ہیں – کہتے ہیں:

" بدھا کا ہندو دیوتاؤں کے ساتھ اتحاد "جنانا یوگا" پر یقین کی طرف واپسی کے سوا کچھ نہیں ہے، یعنی "یوگا کا راستہ" یہ تمام مذاہب اور فلسفوں کو سچائی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لیکن یہ سچائی عظیم اور مکمل سچائی کا صرف ایک ذرہ ہے۔ یہ مکتبہ فکر کسی مذہب یا فلسفے پر اعتراض نہیں کرتا۔ یہ مانتا ہے کہ کوئی بھی مذہب یا فلسفہ سب کچھ نہیں ہے، اور کامل سچائی نہیں ہے۔ اس طرز فکر پر یقین رکھنے والا کسی مذہب یا مکتبہ فکر کی جانب نسبت نہیں رکھتا، کیونکہ وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنا بھائی سمجھتا ہے، چاہے ان میں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ لہذا "جنانا یوگا" ایک ایسا طریقہ ہے جو تمام عقائد کو گھیرے ہوئے ہے اور ان عقائد میں سے کسی ایک کے ذریعے محدود ہونے سے بچاتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو اجاگر کرنا چاہیے کہ اس طرز فکر کی تبلیغ اور ترویج کا مقصد بالواسطہ طور پر اسلام کا مقابلہ کرنا ہے۔ میں نے یہ کوششیں کئی ممالک میں دیکھی ہیں۔ اسلام وہ قوت ہے جس نے عیسائی اور بدھ مت  مشنریوں کو شکست دی، لہٰذا اگر وہ لوگوں کو اسلام سے کسی نہ کسی طریقے سے ہٹانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں - یہاں تک کہ جنانا یوگا کے نام پر بھی جو تمام عقائد سے بالا تر ہے اور خود کو ان میں سے کسی ایک تک محدود نہیں رکھتا ہے- تو یہ ان کے لئے ایک عظیم فتح ہو گی۔ جب وہ اس چالبازی کے نتیجے میں مسلمان کو اسلام سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر اسے شک میں ڈالنا اور پھر اسے کسی اور دائرے میں لے جانا ممکن ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو یوگا اور اس کی فریب کاری اور اس کو فروغ دینے والوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔‘‘ ختم شد
" أديان الهند الكبرى " ( ص 174 )

ہمارا خیال ہے کہ یوگا سے یکسر منع کرنا ہی صحیح موقف ہے۔ ہم نے اس ورزش کے بارے میں بہت سے لوگوں کی گفتگو کا مطالعہ کیا ہے، پھر ہم نے اس پر حکم لگانے کے لیے ایک کتاب سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے یہ کتاب خصوصی طور پر اس یوگا نامی ورزش پر لکھی گئی ہے ، اس کتاب کے مصنف طبی ماہر بھی ہیں اور ہمیں ان کے منہج اور عقیدے کے متعلق بھی اطمینان ہے؛ چنانچہ انہیں علم ہے کہہ وہ کیا لکھ رہے ہیں اور انہوں نے یوگا نامی اس ورزش کے صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے بھی بات کی ہے، اس کتاب کے مصنف کا نام ڈاکٹر فارس علوان ہے اور ان کی کتاب کا نام " اليوغا في ميزان النقد العلمي " ہے جسے دارالسلام نے قاہرہ سے شائع کیا ہے۔ ہر وہ چیز جس کا ہم ذیل میں حوالہ دیں گے اسی کتاب سے لی گئی ہے، لیکن واضح رہے کہ ہم یہاں مکمل کتاب نقل نہیں کر سکتے ۔ اس لیے ہم یوگا کی تعریف اور اس کے شرعی احکام تک محدود رہیں گے۔ جو مزید جاننا چاہتا ہے وہ مذکورہ کتاب کا مطالعہ کر سکتا ہے۔

دوم:

یوگا کیا ہے؟

یوگا کا مطلب اتحاد ہے؛ اس کے نامور اساتذہ میں سے ایک کا کہنا ہے کہ یہ روح کے ساتھ انسان کا اتحاد ہے!!

یوگا میں مختلف مشقیں اور آسن شامل ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم اور مشہور سورج نمسکار [جسے انگریزی میں "Sun Salutation" کے نام سے جانا جاتا ہے]، جس کا سنسکرت میں مطلب ہے: "جسم کے آٹھ حصوں پر سورج کو سجدہ کرنا!! " اور ان کے ہاں یہ حصے دو پاؤں، دو گھٹنے، دونوں ہاتھ، سینہ اور پیشانی پر مشتمل ہیں۔

یوگا کرنے والے کے لیے برہنہ ہونا افضل ہے، خاص کر سینہ، کمر اور رانوں کا!!

 سورج کا سامنا کرنا جب وہ طلوع ہو رہا ہو اور جب غروب ہو رہا ہو!! اگر وہ صحیح اور فائدہ مند یوگا چاہتا ہے ۔ اسی طرح اپنی نگاہوں اور توجہ سورج کی ٹکیہ پر مرکوز کرے، سورج کے ساتھ پوری طرح منسلک رہے یعنی اس کا جسم، اس کی صلاحیتیں، اس کا دماغ اور اس کا دل سب کچھ سورج کے ساتھ نتھی ہو جائے۔ اگر وہ کسی گنجان آباد علاقے میں ہے اور سورج کو نہیں دیکھ سکتا تو وہ اپنے سامنے سورج کی ٹکیہ دیوار پر بنا لے۔

کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ: اگر یوگا کرنے والا کسی مذہب کا ماننے والا ہے اور کسی کفر کے ارتکاب کی فکر میں ہے تو اپنے سامنے کوئی بھی تصویر بنائے اور اس پر پوری توجہ مرکوز کر لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں !!

یوگا میں اپنے جسم پر گہرائی سے غور کرنا اور جسم کے ہر حصے کے بارے میں سوچنا اور جانچنا بھی شامل ہے، یہ سوچ اور جانچ بیدار ہوتے وقت بستر سے اٹھنے سے قبل انگلیوں سے شروع ہو کر سر تک جاتی ہے، پھر جب سونے لگے تو سر سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک اسی طرح سوچنا اور جانچنا ہے، اور اس اہم کام کو بھولنے یا اس سے مشغول ہونے کی قطعاً اجازت نہیں ہے!!

پھر جو بھی یوگا سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے سبزی خور بھی ہونا چاہیے۔

اور یہ ورزش کرتے وقت اسے مخصوص الفاظ کو اونچی آواز میں دہرانا پڑتا ہے۔ ان الفاظ کو منتر کہتے ہیں، جن میں سب سے مشہور بیج منتر ہے، جو کہ: "ہرام، ہریم، ہروم، ہرایم، ہراوم، ہرات ہے"۔ یوگا میں کچھ بنیادی الفاظ کو بھی بار بار دہرایا جاتا ہے، جیسے "اوم " ۔

اس کے علاوہ سورج کے بارہ ناموں کو دہرانا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ یوگا کا ایک بڑا اور اہم حصہ ہے۔

سورج کے ناموں میں شامل ہیں:

رفاناما، جس کا مطلب ہے، ’’میں تیرے آگے سر جھکاتا ہوں، اے وہ جس کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔‘‘

سورینام، جس کا مطلب ہے، "میں اپنا سر تیرے آگے جھکاتا ہوں، اے سب کے رہنما۔"

بہانافیناما، جس کا مطلب ہے، "میں تیرے آگے سر جھکاتا ہوں، اے حسن عطا کرنے والے۔"

سافتیرناما، جس کا مطلب ہے، "میں تیرے آگے سر جھکاتا ہوں، اے زندگی عطا کرنے والے" وغیرہ۔

اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان الفاظ کا تکرار بہت فائدہ مند ہے!!

یوگا کرنے والوں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ وہ صبح 3.30 بجے اٹھتا ہے اور یوگا کی مشق کرتا رہتا ہے اور صبح 6:15 بجے تک اس کی خصوصی دعائیں کرتا رہتا ہے اور شام کو وہ 6 بجے سے 6:30 بجے تک یہی کام کرتا ہے۔

اس طرح وہ روزانہ ساڑھے تین گھنٹے یوگا کی مشق میں صرف کرتے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ اس سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جتنا زیادہ وقت اس میں گزاریں گے اتنا ہی فائدہ مند ہے۔ (الیوجا فی میزان النقد العلمی صفحہ 13-18)

سوم:

اسلام میں یوگا کا حکم

خلاصہ یہ کہ مسلمان کے لیے یوگا بالکل جائز نہیں ہے، خواہ وہ اسے اچھا سمجھ کر کرتا ہو یا دوسروں کی دیکھا دیکھی میں کرتا ہو، یا اس کی وجہ سے کسی خاص نام نہاد فائدے کی تلاش میں ہو۔ مندرجہ بالا نتائج کے متعدد اسباب اور وجوہات ہیں، ا ن کا خلاصہ ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:

1- کیونکہ یوگا عقیدہ توحید سے متصادم ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرنا ہوتا ہے، اور اس لیے کہ اس میں سورج کو سجدہ کرنا اور اس کے ناموں کو دہرانا ہوتا ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ مجھے صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں [الرعد: 36]

اسی طرح فرمایا:
لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ
 ترجمہ: اگر تم اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرو گے تو یقیناً تمہارے تمام اعمال رائیگاں جائیں گے اور تم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔ [الزمر: 65]

2- اس میں مشرکوں سے مشابہت شامل ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے) اس حدیث کو احمد، ابوداود اور طبرانی نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

3- یوگا کے کچھ آسن اور پوز زیادہ تر لوگوں کے لیے نقصان دہ ہیں جن کی وجہ سے ان کے لیے صحت کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ یوگا کے کچھ آسنوں میں بہت ہی عجیب اور شرمناک طریقے سے بیٹھنا اور آس پاس جو کچھ ہو رہا ہے اس سے غافل ہو کر سستی کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے۔ یہ صحت اور نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی نقصان دہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچاؤ)۔ اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

4- کیونکہ ایسا کام کرنے سے وقت ضائع ہوتا ہے کہ جس سے دنیا میں کوئی فائدے کی بجائے نقصان ہو اور آخرت میں بھی مصیبت اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قیامت کے دن بندے کے پاؤں اس وقت تک نہیں ہل پائیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے: اس کی زندگی کے بارے میں کہ اسے کیسے گزارا؟ اس کے علم کے بارے میں کہ اس نے حاصل کردہ علم کے ساتھ کیا کیا؟ اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور اس نے حاصل کردہ مال کو کس چیز پر خرچ کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اس نے اپنے جسم کو کہاں استعمال کیا؟ ) اس حدیث کو امام ترمذی نے ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

5- یوگا میں انتہائی شرمناک انداز اپنانے کی دعوت ہے کہ جانوروں کی مشابہت اختیار کی جائے اور انسانیت سے ہٹ کر کام کیا جائے یعنی: برہنگی اختیار کریں، اکثر مشقوں میں دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کا استعمال ہے جیسے کہ (سوریہ نمسکار یا سورج کی سلامی) اور تیسری اور آٹھویں مشقوں میں خصوصی آسن ملاحظہ کریں۔

 6- اس لیے بھی کہ جن لوگوں نے یوگا کو "سائنسی یوگا" یا "رویے کی تھراپی" کہلانے کی کوشش کی ان میں سے بہت سے لوگ منشیات اور نشے کے گڑھے میں گر گئے، اور یہ علاج بے اثر اور کوئی فائدہ مند ثابت نہ ہوا ۔

7- اس یوگا نامی ورزش کی بنیاد جھوٹ اور دھوکا دہی پر ہے۔ اس ورزش کو فروغ دینے والے اسے پھیلانے کے لیے دھوکہ دہی سے کام لے رہے ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اس غلط ہتھکنڈے کو اپنانے کی وجہ سے یہ لوگ بڑی سادہ طبیعت رکھنے والے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں ، ان میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ایمان میں کمزور ہیں۔

8- چونکہ یوگا کروانے والوں میں سے چند ایک لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ پیچیدہ اور منحرف افکار میں غیر معمولی کارنامے انجام دے سکتے ہیں، اور لوگ ان کی شعبدہ بازی کی وجہ سے ان سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ حالانکہ اکثر صورتوں میں یہ لوگ جنات اور شیطانوں کو ہی استعمال کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ جادو وغیرہ میں کچھ لوگ جنات کو استعمال کرتے ہیں جو کہ اسلام میں حرام ہے۔

9- یوگا کے فروغ دینے والوں کی طرف سے انسانوں کو دیے گئے زیادہ تر مشورے انسان کے لیے نقصان دہ ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:

(a) برہنگی اور اس سے پیدا ہونے والی ثقافتی، جنسی، نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں ۔

(ب) اپنی جلد کو سورج کے سامنے لانا۔ ہم نے اس عمل کے نقصانات کا مشاہدہ خود کیا ہے، خصوصاً جب سورج کے سامنے لمبی مدت تک رہا جائے تو اس کے نقصانات شدید ہو جاتے ہیں۔

(c) سورج کی ٹکیہ پر نظریں جمانا جس سے آنکھوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

(d) سبزی خور بننے کی ترغیب دینا ، حالانکہ اس بات کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی، اور اس کے بارے میں تفصیلی گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔
(الیوجا فی میزان النقد العلمی ص 84-86)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب