الحمد للہ.
چورى حرام ہے، بلكہ يہ كبيرہ گناہ ہے، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور جب چور چورى كرتا ہے تو وہ مومن نہيں ہوتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5578 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 57 ).
بلاشك بنكوں كى ويب سائٹ ہيك كرنا اور وہاں سے مال منتقل كرنا حرام كام ہے، اور لوگوں كا ناحق مال كھانا ہے.
اور رہا يہ كہ آيا ايسا كرنا ہاتھ كاٹنے كا موجب ہے يا نہيں، تو يہ معاملہ شرعى قاضى پر لوٹتا ہے جس كے سامنے يہ مقدمہ پيش كيا جائے.
چور كا ہاتھ كاٹنے كے ليے كچھ شروط كا ہونا ضرورى ہے، ان شروط ميں يہ بھى ہے كہ مال مسروقہ حرز ( يعنى وہاں سے چرايا گيا ہو جہاں عام طور پر محفوظ كيا جاتا ہے ) سے چرايا گيا ہو.
امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جمہور لوگ اس پر متفق ہيں كہ ہاتھ اس كا كاٹا جائيگا جس نے كسى محفوظ جگہ سے اتنا مال نكالا جو ہاتھ كاٹنے كو واجب كر دے ....
الحرز وہ ہے: جو عام طور پر لوگوں كا مال محفوظ كرنے كے ليے نصب كيا جائے، اور يہ ہر چيز كى حالت كے اعتبار سے مختلف ہو گا.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس باب ميں كوئى خبر ثابت نہيں جس ميں اہل علم كا مقال نہ ہو، بلكہ يہ اہل كے اجماع كى طرح ہے " انتہى.
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 6 / 162 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
چورى ميں ہاتھ كاٹنے كى شروط كيا ہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
چور كا ہاتھ كاٹنے ميں نو شرطيں پائى جائيں:
1 – چورى: چورى يہ ہے كہ چھپ كر مال چرايا جائے، اور اگر اس نے چھينا، يا اچك ليا تو اس كا ہاتھ نہيں كاٹا جائيگا.
2 - چور مكلف ہو، اس ليے بچے اور مجنون پر حد نہيں لگائى جائيگى.
3 - مال مسروقہ نصاب تك پہنچا ہو، نصاب سے كم مال مسروقہ ميں ہاتھ نہيں كاٹا جائيگا، اور نصاب ايك چوتھائى سونے كا دينار ہے، يا اس كى قيمت كے برابر اشياء.
4 - مال مسروقہ اس چيز ميں شامل ہوتى ہو جسے عام طور پر مال شمار كيا جاتا ہے.
5 - مال مسروقہ وہ چيز ہو جس ميں شبہ نہ ہو.
6 - مال محفوظ جگہ ( حرز ) سے چرايا گيا ہو.
7 - وہ اسے محفوظ جگہ سے نكالے.
8 - حاكم كے پاس چورى دو عادل گواہوں سے يا پھر چور كے اقرار سے ثابت ہو.
9 - مال مسروقہ كا مالك آئے اور اس كا دعوى كرے.
ان شروط كو ديكھنا، اور اسے چورى پر لاگو كرنا شرعى قضاء اور فيصلے كى طرف جاتا ہے " انتہى.
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ بكر ابو زيد.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 223 - 224 ).
واللہ اعلم .