الحمد للہ.
اس مسئلہ ميں ہمارى رائے تو يہى ہے كہ جب آپ اسلامى شعار ظاہر كرنے كى استطاعت ركھتے ہيں، تو پھر اس طاقت كو سنبھال كر مت ركھيں، كيونكہ جب انسان كسى كفريہ ملك ميں داخل ہوتا ہے تو اس كے ليے وہاں اسى صورت ميں بود و باش اختيار كرنا اور رہنا جائز ہے جب وہ اپنا دين ظاہر كرنے كى استطاعت ركھتا ہو، اور دين كے شعار اور دينى علامات ظاہر كر سكتا ہو.
اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں اللہ تعالى كا ذكر اور قرآن مجيد كى تلاوت، اور اسى طرح لباس اور داڑھى وغيرہ دوسرے مظاہر اسلاميہ كا اظہار اور حرام كردہ اشياء مثلا شراب نوشى وغيرہ سے اجتناب كرنا، يہ سب كچھ ظاہر اور اعلانيہ طور پر كرنا ضرورى ہے.
لباس كے متعلق ہمارى رائے يہ ہے كہ اگر آپ كے ليے اسلامى لباس كا اظہار كرنا اور اسے پہننا ممكن ہے تو پھر آپ مسلمانوں والا لباس ہى زيب تن كريں، اور آپ حكومت كو كہيں كہ ہم مسلمان ہيں اور ہميں بھى بالكل اسى طر اپنا اختيار كرنے اور اس كے اظہار ميں آزادى ہے، جس تم عيسائى اپنا وہى لباس زيب تن كرتے ہو جس كے عادى ہو، اور تم اپنے دينى شعار اور علامات صليب وغيرہ جو تمہارے چرچوں ميں ہيں كا اظہار كرتے ہو، تو اسى طرح ہميں بھى حق حاصل ہے جس طرح تمہيں ہے.
اور اگر وہ يہ قوانين اور نظام اس پر لاگو كرتے ہيں جو ان كے ہاں ملازمت كرے تو ہم يہ كہينگے: اگر آپ اس كے علاوہ كسى اور علاقے اور ملك ميں منتقل ہو سكتے ہيں تا كہ وہاں اپنے دين پر عمل كر سكيں اور اس كے شعار كا اظہار كرنا ممكن ہو تو آپ ايسا ضرورى كريں اور اس ملك سے منتقل ہو جائيں، ليكن اگر آپ ايسا نہ كر سكتے ہوں تو پھر آپ حتى الوسعۃ استطاعت كے مطابق اپنے دين اور اسلامى شعار كا اظہار كريں.
كيونكہ دين مسجد يا گھر ميں قيد نہيں ہو سكتا، بلكہ دين پر ع مل تو ماركيٹ اور بازار ميں بھى ہو گا، اور راستوں اور سڑكوں پر بھى اور كمپنيوں اور فيكٹريوں ميں اور سارى عمومى جگہوں پر بھى، اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے دين ميں كبھى بھى مداہنت سے كام نہيں ليتے تھے.
بلكہ ہجرت سے قبل جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مكہ ميں تھے تو بھى نماز ظاہرى اور اعلانيہ طور پر ادا كيا كرتے تھے، اور كفار مكہ ديكھا كرتے، جب مسلمانوں كا دوسروں سے امتياز ہو چكا اور انہوں نے اپنا ايك لباس مخصوص كر ليا ہے تو پھر انہيں وہ اپنا لباس زيب تن كرنا چاہيے.
اور جو كفار كے شعارات ميں سے اس كے مخالف ہو اور كفار اس كے ساتھ ممتاز ہيں تو پھر اسے اختيار نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ ايسا كرنے ميں كفار سے مشابہت ہے، اور جو كوئى بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے وہ انہى ميں سے جيسا كہ حديث ميں وارد ہے.
الشيخ عبد اللہ بن جبرين.
اور آپ كا مسلمان ملك ميں موجود ہونا موقع غنيمت سمجھنا چاہيے اور اس موقع سے فائدہ اٹھا كر مسلمانوں كو ان كے اسلامى اصول ياد دلانے چاہيے، اور انہيں ان كے دين اور اسلامى تاريخ كے ساتھ مربوط كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور جس جگہ اور مركز ميں آپ ہيں اس ميں ممكن ہے آپ بغير اس ملك كے لوگوں كى جانب سے اذيت پہنچنے كا خدشہ اور ڈر ركھے بغير ہى دينى شعار اور اپنے اسلامى لباس كا اظہار كريں، اور يہ چيز مسلمانوں كو اپنے دين كے اظہار كرنے پر ابھارے گى اور انہيں بہادر بنائيگى، آپ يہ مت بھوليں آپ كو اس پر اجروثواب حاصل ہو گا، اور آپ كو لوگوں كى باتوں اور كلام وغيرہ سے جو تكليف ہو گى اس پر آپ كا صبر كرنا بھى اجروثواب كا باعث ہے، اللہ تعالى بہتر عمل كرنے والے كے عمل كو ضائع نہيں كرتا.
واللہ اعلم .