جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کیا کائنات میں غور و فکر کرنا بھی عبادت ہے؟

سوال

کیا یہ بات صحیح ہے کہ کائنات میں غور و فکر کرنا عبادت کی طرح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کائنات کے متعلق غور و فکر اس طرح کرنا کہ اللہ تعالی کی مخلوقات اور اس کائنات میں موجود بے مثال تخلیقات پر غور و خوض کریں اور ان کی تخلیق کو اللہ تعالی کی عظمت اور قدرت کے لیے دلیل بنائیں تو یہ عبادت ہے اس سے ایمان میں اضافہ اور یقین کامل ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نےقرآن مجید میں متعدد بار غور و خوض اور سوچ بچار کی دعوت دی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ترجمہ: کہہ دو ، تم زمین پہ چلو اور دیکھو کس طرح اس نے آغاز تخلیق کیا ہے، پھر اللہ تعالی انہیں ایک بار پھر پیدا کرے گا، یقیناً اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔[العنكبوت:20]

اسی طرح فرمایا:
 أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ 
 ترجمہ: کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے پیدا کیا گیا؟ اور آسمان کی طرف کہ کیسے اسے بلند کیا گیا ہے، اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے انہیں گاڑا گیا ہے، اور زمین کی طرف کہ کیسے اسے برابر کیا گیا ہے۔[الغاشیہ: 17-20]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
 إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ 
 ترجمہ: یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، نیز رات اور دن کے آنے جانے میں، اور سمندر میں لوگوں کو فائدہ دینے والی چیزیں لے کر چلنے والی کشتیوں میں، اور آسمان سے اللہ تعالی کے نازل کردہ پانی میں کہ جس کے ذریعے اللہ تعالی نے زمین کو بنجر ہونے کے بعد زندہ کر دیا، اور اس زمین میں ہر قسم کے حرکت کرنے والے جانور پھیلا دیے، ہواؤں کے چلنے میں، اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر بادلوں میں نشانیاں ہیں عقل رکھنے والی قوم کے لیے۔[البقرۃ: 164]

چنانچہ جب انسان ان مخلوقات پر غور و خوض کرے، اور ان کے پیدا کرنے کی حکمت پر سوچ بچار کرے، ان کی بے نظیر تخلیق پر ذہن لگائے، اور اس چیز کو سوچے کہ اللہ تعالی نے ان تمام چیزوں کو اپنے تابع بنایا ہے تو اس کا ایمان اور یقین دونوں ہی بڑھ جائیں اور اس غور و خوض پر اسے اجر بھی ملے گا۔

اسی طرح سابقہ امتوں کے حالات پر غور و فکر کرے، اور ان کی بادشاہتوں کو دیکھے کہ کس طرح ان کی نافرمانی اور کفر کی وجہ سے یہ سب کچھ تباہ ہو گیا، اور ان سے عبرت پکڑے ، بالکل ایسے ہی جیسے اللہ تعالی نے قوم صالح اور ان کے علاقے دیارِ ثمود کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: آپ دیکھیں کہ ان کی مکاری کا انجام کیا ہوا، یقیناً ہم نے انہیں اور ان کی قوم سب کو تباہ کر دیا، اب یہ ان کے گھر انہی کے ظلم کی وجہ سے ویران ہیں؛ یقیناً اس میں جاننے والی قوم کے لیے نشانی ہے۔[النمل: 51-52]

جبکہ محض سیر و تفریح اور وقت پاس کرنے کے لیے جہان کو دیکھنا تو یہ عبادت نہیں ہے، البتہ جائز ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے واجب کاموں سے توجہ نہ ہٹے یا حرام کام میں ملوث نہ ہو۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب