الحمد للہ.
اصل يہى ہے كہ بيوى جو بچہ جنے وہ خاوند كا ہى ہو گا سوال كرنے والے بھائى آپ كے ليے جائز نہيں كہ زنا كرتے ہوئے ديكھے بغير بيوى پر تہمت لگائيں ـ جيسا كہ بيان ہو چكا ہے ـ اور اسى طرح بغير كسى دليل كے بچے اور حمل كى نفى كرنا بھى آپ كے ليے حلال نہيں، يعنى يا تو آپ اسے زنا كرتے ہوئے خود اپنى آنكھوں سے ديكھيں، يا پھر آپ كا حمل ہونا مستحيل ہو يعنى آپ بيوى كے پاس نہ تھے بلكہ غائب تھے، اور يا آپ نے اس كے ساتھ طہر ميں جماع ہى نہ كيا ہو اور اس طرح كى دوسرى حالت.
ليكن اگر اس كے علاوہ كچھ ہو تو پھر آپ كےليے صرف شك اور شبہ و وہم كى بنا پر حمل اور بچے كى نفى كرنا جائز نہيں، اور جيسا كہ ہم اوپر كہہ چكے ہيں كہ كسى دوسرے مرد سے حرام تعلق اور بات چيت كا معنى يہ نہيں كہ اس سے زنا بھى ہوا ہے.
اور يہاں ہم يہ اضافہ كرينگے كہ: اس كا يہ معنى نہيں كہ زنا ہوا ہے، يا وہ اس زنا سے حاملہ ہے.
اس بنا پر اگر تو آپ نے اپنى آنكھوں سے اسے زنا كرتے ہوئے ديكھا ہے تو پھر آپ كو حمل اور بچے كى نفى كرنے كا حق حاصل ہے، ليكن اگر يہ سب كچھ شك كى بنياد پر ہوا ہے تو پھر آپ كو بيوى كے حمل اور بچہ كى نفى كرنا جائز نہيں، اور آپ شيطانى وسوسوں ميں مت آئيں، اور اس سے بچ كر رہيں كہ آپ تہمت و بہتان اور خيانت و وسوسے كے عالم ميں زندگى گزارنے لگيں، وگرنہ اس طرح تو آپ كى دنيا و دين دونوں ہى خراب ہو جائينگے.
اور پھر بچے كے نسب كا ثبوت حاصل كرنے كے ليے ميڈيكل رپورٹ پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ يہ شك و وسوسہ كا دروازہ ہے، اور اگر لوگوں كے ليے يہ دروازہ كھول ديا گيا كہ وہ اس رپورٹ پر اعتماد كريں جس رپورٹ ميں غلطى ہونے كا امكان موجود ہے تو لوگ ان رپورٹوں پر ہى اعتماد كرنا شروع كر ديں گے.
اس ليے شريعت مطہرہ نسب كے ثبوت كے ليے ادنى سى دليل پر بھى اعتماد كرتى ہے، اور نسب كى نفى ميں قوى سے قوى دليل پر اعتماد ركھتى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نسب كے ثبوت كے ليے احتياط كى جائيگى، اور نسب ادنى سى دليل كے ساتھ ثابت ہو جائيگا، اور اس سے لازم آتا ہے كہ نسب كى نفى ميں تشديد كى جائے، اور كسى كمزور دليل كى بنا پر نفى نہ ہو بلكہ قوى دليل كے ساتھ نفى كى جائے "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 6 / 420 ).
اور يہ بھى علم ركھيں كہ ميڈيكل رپورٹ لعان كے قانون كے قائم مقام نہيں ہو سكتى؛ كيونكہ عورت اپنے خاوند كى جانب سے لگائى گئى تہمت اور اپنے ستر كو لعان كے ساتھ دور كر سكتى ہے، اور اللہ عزوجل كو علم ہے كہ ان دونوں ميں سے ايك جھوٹا ہے، ليكن اس كے باوجود لعان مشروع كيا گيا؛ لہذا ان ميڈيكل رپورٹس كے ساتھ خاوند كو حق ديا اور عورت كو اس سے منع نہيں كيا جا سكتا "
رابطہ عالم اسلامى كے تحت " مجلس المجمع الفقھى " كے سولويں اجلاس جو كہ مكہ مكرمہ ميں منعقد ہوا ميں ڈى اين اے ٹيسٹ اور اس سے متعلق دوسرے امور كے متعلق يہ فيصلہ ہوا جس ميں اس طرح كى حالت ميں اس رپورٹ پر اعتماد كرنے كے عدم جواز اور اس كو لعان كے قائم مقام نہ بنانے كا فيصلہ ہو جو ہمارے سابقہ قول كى تائيد بھى ذيل ميں ہم اس فيصلہ كو پيش كرتے ہيں:
ساتويں قرار:
ڈى اين اے ٹيسٹ اور اس سے امستفاد امور كے متعلق:
وحدہ و الصلاۃ و السلام على من لا نبى بعد:سب تعريفات اللہ وحدہ كے ليے ہيں، اور اس پر درود و سلام جس كے بعد كوئى نبى نہيں.
اما بعد:
اسلامى فقہ اكيڈمى كى مجلس اپنے سولويں اجلاس جو كہ مكہ مكرمہ ميں ( 21 – 26 / 10 / 1422 هـ ) الموافق ( 5 – 10 / 1 / 2002 ميلادى ) ميں منعقد ہوا ميں درج ذيل فيصلہ كيا گيا:
فقہ اكيڈمى كے پندرھويں اجلاس ميں ڈى اين اے ٹيسٹ كى تعريف كو ديكھتے ہوئے كہ ڈى اين اے ٹيسٹ ہر انسان كى بعينہ تعريف پر دلالت كرتا ہے، اور علمى سرچ سے يہ ثابت ہے علمى ناحيہ يہ ايك بہت اچھا وسيلہ ہے جس سے طب شرعى كے امور آسان ہو جاتے ہيں، اور يہ ٹيسٹ كسى بھى بشرى خليہ يعنى خون يا لعاب يا منى يا پيشاب يا كسى اور چيز سے حاصل كيا جا سكتا ہے "
پندرھويں اجلاس ميں فقہ اكيڈمى كى جانب سے اس كے ليے قائم كردہ كميٹى كى رپورٹ جس ميں ڈى اين اے ٹيسٹ كے متعلق ميدانى سرچ اور اس سلسلہ ميں كميٹى كى جانب سے فقھاء اور ڈاكٹر اور تجربہ كار و ماہرين كى جانب پيش كردہ رپورٹ اور اس سلسلہ ميں مباحثہ پر غور و خوض كرنے كے بعد درج ذيل نتيجہ سامنے آيا:
ڈى اين اے ٹيسٹ كے نتائج اولاد كى والدين كى جانب نسبت يا اس كى نفى كرنے كے تقريبا قطعى ثبوت تك پہنچ رہے ہيں، اور منى يا خون يا لعاب كے نمونہ ميں جو حادثہ ميں پايا جاتا ہے اس سے اس اس شخص كا علم ہو سكتا ہے، اور يہ عام قيافہ شناسى ( جس ميں اصل اور فرع كے درميان جسمانى مشابہت كے وجود كى وجہ سے نسب كا ثبوت ہوتا ہے ) سے بہت زيادہ قوى ہے، ڈى اين اے ٹيسٹ ميں اس اعتبار سے كوئى غلطى اور خطا نہيں، بلكہ خطا تو بشرى كوشش يا خلط ملط كے اسباب وغيرہ كى بنا پر ہے، اس وجہ سے درج ذيل فيصلہ كيا گيا:
اول:
جرم و سزا ميں ڈى اين اے ٹيسٹ پر اعتماد كرنے ميں كوئى شرعى مانع نہيں، اور اسے ان جرائم كے ثبوت كے ليے ايك وسيلہ شمار كرنا جن ميں كوئى شرعى حد اور قصاص نہيں كيونكہ حديث ميں ہے ( حدود كو شبہات سے ختم كرو ) اور يہى چيز معاشرے كے ليے امن اور عدل و انصاف پيدا كرتى ہے اور مجرم كو سزا تك پہنچانے اور تہمت زدہ شخص كو برى كرنے كا باعث ہے، اور شرعى مقاصد ميں يہ ايك اہم شرعى مقصد ہے.
دوم:
نسب ميں ڈى اين اے ٹيسٹ كو استعمال كرنے ميں بچاؤ اور سرى احتياط ضرورى ہے، اسى ليے شرعى قواعد و اصول اور نصوص كو ڈى اين اے ٹيسٹ پر مقدم كرنا ضرورى ہے.
سوم:
نسب كى نفى ميں ڈى اين اے ٹيسٹ پر اعتماد كرنا شرعى طور پر جائز نہيں، اور نہ ہى اسے لعان پر مقدم كرنا جائز ہے.
چہارم:
شرعا ثابت شدہ نسب كے صحيح ہونے كے ليے ڈى اين اے ٹيسٹ استعمال كرنا جائز نہيں ہے، اس كے ليے مخصوص اداروں كو ايسا كرنے سے روكنا اور منع كرنا ضرورى ہے، اور اس كے ليے سخت سزائيں مقرر كى جائيں تواس سے روك كر ركھيں ؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں ہى لوگوں كى عزت كى حفاظت اور ان كے نسب ناموں كى ديكھ بھال ہو گى.
پنجم:
درج ذيل حالات ميں نسب كے ثبوت كے ليے ڈى اين اے ٹيسٹ پر اعتماد كرنا جائز ہے:
1 ـ مجھول نسب كے تنازع كے حالات ميں جتنى بھى مختلف صورتيں ہوں جن كا ذكر فقھاء نے كيا ہے چاہے مجھول نسب ميں دلائل نہ ہونے يا پھر دلائل برابر ہونے كے تنازع كى حالت ميں ہو، يا پھر وطئ شبہ ميں اشتراك كے سبب وغيرہ سے ہو.
2 ہاسپٹل اور بچوں كى ديكھ بھال كے مراكز وغيرہ ميں بچوں كے اشتباہ كے وقت اور اسى طرح بےبى ٹيسٹ ٹيوب ميں اشتباہ كى صورت ميں.
3 حادثات يا جنگ كى بنا پر بچے ضائع يا خلط ملط ہونے كى حالت ميں كہ ان كے گھر اور خاندان والوں كا علم نہ ہو سكے، يا پھر ايسى لاشيں ملنے كى صورت ميں جن كى شناخت ممكن نہ ہو، يا پھر جنگى قيدى اور گمشدہ افراد كى شناخت كے ليے " انتہى
يہ ايك واضح قوى قرار و فيصلہ ہے، ہم اميد كرتے ہيں كہ ہم نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ آپ كے ليے اپنے بچے كى نفى كرنے كى ممانعت كے ليے كافى ہو گا.
اللہ تعالى سے ہم دعا گو ہيں كہ وہ اسے سچى اور پكى توبہ كرنے كى توفيق دے، اور آپ كے ليے خير وبھلائى آسان كرے جہاں بھى ہو، اور آپ كو اس آزمائش ميں صبر كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
اور ہم آپ كو وصيت كرتے ہيں كہ اپنے ساتھ خير و بھلائى كريں، نہ تو اسے ہلاك و تباہ كريں اور نہ ہى ايسى اشياء كے سامنے پيش كريں جس سے وہ ہلاك و تباہ ہو جائے آپ يہ كر سكتے ہيں كہ اسے طلاق دے كر اس كے سارے حقوق بھى ادا كر ديں، اور يہ بھى كر سكتے ہيں كہ آپ اسے طلاق دينے كى بجائے اپنے پاس ہى ركھيں ليكن اس كے ليے اس كى سچى توبہ شرط ہے اگر ديكھيں كہ وہ سچى توبہ كر ليتى ہے تو آپ اسےطلاق مت ديں اور اپنے نكاح ميں رہنے ديں.
ہم گزارش كرتے ہيں كہ ہم نے جو كچھ تفصيل بيان كى ہے اس ميں آپ غور و خوض كريں اور اللہ سے معاملات كى آسانى سہولت كى دعا كريں.
واللہ اعلم .