الحمد للہ.
اول:
آدمى كا طلاق كے الفاظ ادا كرنے ميں جلدبازى سے كام لينا بہت بڑى غلطى ہے، كيونكہ بعض اوقات اس سے نہ چاہتے ہوئے بھى خاندان كا شيرازہ بكھر جاتا ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے طلاق اس ليے مشروع نہيں كى كہ اس سے غصہ ٹھنڈا كيا جائے، بلكہ طلاق تو مشروع اس ليے كى ہے تا كہ آدمى اسے اس صورت اور حالت ميں استعمال كرے جب وہ نكاح كو ختم كرنا چاہتا ہو، اور يہ بھى اس صورت ميں جب نكاح ختم كرنے كا كوئى سبب پايا جائے.
اس بنا پر آپ كو اپنى زبان كى حفاظت كرتے ہوئے غصہ يا پھر خوشى ہر حالت ميں طلاق كے الفاظ ادا كرنے سے محفوظ ركھنا چاہيے.
دوم:
غصہ كى حالت ميں طلاق دينے والے كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
غصہ اتنا كم ہو كہ وہ اس كے ارادہ اور اختيار پر اثرانداز نہ ہو، تو اس حالت ميں دى گئى طلاق صحيح ہے اور يہ واقع ہو جائيگى.
دوسرى حالت:
اگر غصہ اتنا شديد ہو كہ اسے علم ہى نہ رہے كہ وہ زبان سے كيا نكال رہا ہے، اور اسے شعور تك نہ ہو تو اس حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ يہ مجنون اور پاگل كى جگہ شمار ہوگا جس كے اقوال كا مؤاخذہ نہيں ہے.
ان دونوں حالتوں كے حكم ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں، ليكن تيسرى حالت باقى ہے وہ كہ:
تيسرى حالت:
اتنا شديد غصہ جو آدمى كے ارادہ پر اثرانداز ہو جائے اور وہ ايسى كلام كرنے لگے جس پر اس كا كنٹرول نہ ہو گويا كہ اس سے يہ بات نكلوائى جا رہى ہے، اور اپنے اقوال اور افعال پر اسے كنٹرول نہ رہے.
تو غصہ كى يہ قسم ايسى ہے جس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن راجح يہى ہے ـ جيسا كہ شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے ـ يہ طلاق بھى واقع نہيں ہوتى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" شديد غصہ اور جبر كى حالت ميں نہ تو طلاق ہے اور نہ ہى آزادى "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2046 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے الارواء الغليل ( 2047 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اغلاق كا معنى علماء نے يہ كيا ہے كہ: اكراہ يعنى جبر اور شديد غصہ.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ نے اس قول كو ہى اختيار كيا ہے، اور اس سلسلہ ايك مشہور كتابچہ بھى " اغاثۃ اللھفان فى حكم طلاق الغضبان " كے نام سے تاليف كيا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 45174 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس بنا پر اگر آپ كا غصہ اس حد تك پہنچ چكا تھا كہ اس نے آپ كو يہ الفاظ ادا كرنے پر مجبور كر ديا، كہ اگر يہ غصہ نہ ہوتا تو آپ طلاق نہ ديتے، تو اس صورت ميں طلاق واقع نہيں ہو گى.
سوم:
اگر آدمى اپنى بيوى كو كہے: تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق، يا پھر وہ كہے" تجھے تين طلاقيں " تو اس سے ايك طلاق ہى واقع ہوگى، شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہم اللہ نے اسے ہى اختيار كيا ہے، اور معاصر علماء كرام ميں سے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار ديا ہے "
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 42 ).
واللہ اعلم .