الحمد للہ.
اول:
سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ ہے اسے ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ: (اہل مدینہ کو شدید قحط سالی کا سامنا تھا، تو انہوں نے سیدہ عائشہ کے سامنے شکایت پیش کی، تو انہوں نے کہا کہ: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر دیکھو اور اس کی چھت میں ایک کھڑکی بنا دو کہ آسمان اور آپ کی قبر کے درمیان کوئی چھت نہ ہو، تو لوگوں نے ایسا ہی کیا، پھر اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہو گئے کہ چربی سے پھٹنے لگے، اور اس سال کو "عام فتق" [موٹاپے سے پھٹ جانے کا سال] کہا گیا۔)
اس روایت کو دارمی: (1/56) نے حدیث نمبر: (92) کے تحت ذکر کیا ہے اور اس پر باب قائم کیا ہے کہ: "باب ہےاس بارے میں کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وفات کے بعد بھی عزت سے نوازا"
امام دارمی اس کی سند بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہمیں حدیث بیان کی ابو نعمان نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعید بن زید نے بیان کی ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عمرو بن مالک نکری نے بیان کی اور انہیں ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ نے بیان کی کہ ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے مذکورہ بالا روایت کا متن ذکر کیا۔
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، صحیح نہیں ہے، علامہ البانی ؒ نے اس کی وضاحت کی ہے، چنانچہ آپ اپنی کتاب: "التوسل" صفحہ: (128) میں کہتے ہیں:
"اس روایت کی سند تین امور کی وجہ سے ضعیف ہے، ان کی وجہ سے یہ روایت دلیل نہیں بن سکتی:
پہلی وجہ: سعید بن زید جو کہ حماد بن یزید کے بھائی ہیں ان میں کمزوری پائی جاتی ہے، اسی لیے حافظ ابن حجر اپنی کتاب تقریب التہذیب میں ان کے متعلق کہتے ہیں کہ: " صدوق له أوهام" یعنی یہ روای صدوق ہے اور اس نے روایت حدیث میں غلطیاں بھی کی ہیں۔
جبکہ حافظ ذہبی ؒ اپنی کتاب المیزان میں کہتے ہیں:
"یحیٰ بن سعید کہتے ہیں کہ یہ راوی: ضعیف ہے۔
سعدی کہتے ہیں کہ: "ليس بحجة يضعفون حديثه"یعنی یہ روای قابل حجت نہیں ہےمحدثین اس کی روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
امام نسائی اور دیگر محدثین کہتے ہیں: "ليس بالقوي"یعنی یہ مضبوط روای نہیں ہے۔
امام احمد کہتے ہیں: " ليس به بأس ، كان يحيى بن سعيد لا يستمرئه "اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ یحیٰ بن سعید اسے قبول نہیں کرتے تھے۔"
دوسری وجہ: یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر موقوف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوع نہیں ہے، چنانچہ اگر صحیح بھی ہوتی تو یہ دلیل نہیں بن سکتی؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ یہ صحابہ کرام کے اجتہادی فیصلوں میں سے ہو جو کہ صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی، اور صحابہ کرام کے اجتہادی فیصلوں پر ہمارے لیے عمل لازمی نہیں کیا گیا۔
تیسری وجہ: یہاں امام دارمی کے استاد ابو نعمان جن کا نام محمد بن الفضل ہے، انہیں عارم کے لقب سے بھی پہچانا جاتا ہے، یہ اگرچہ ثقہ ہیں، لیکن انہیں آخری عمر میں جا کر حافظے کی کمزوری کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔ اسی لیے حافظ برہان الدین حلبی نے انہیں اپنی کتاب: " الاغتباط بمن رمي بالاختلاط " میں شامل کیا ہے، انہوں نے یہ اقدام ابن الصلاح کی پیروی میں کیا ہے؛ کیونکہ ابن الصلاح نے انہیں اپنی کتاب مقدمہ ابن الصلاح میں "مختلطین" میں شامل کیا ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ: "ان لوگوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ان میں سے ان لوگوں کی روایات قبول ہوں گی جنہوں نے ان راویوں سے اختلاط سے پہلے روایت لی ہے، لہذا جس نے اختلاط کے بعد روایت لی ہے، یا جن کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو پا رہا کہ انہوں نے اختلاط سے قبل روایت لی تھی یا بعد میں تو ان کی روایت بھی قبول نہیں ہو گی"
تو اس بنا پر میں [البانیؒ] کہتا ہوں کہ: اس روایت کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ دارمی نے ان سے اختلاط سے پہلے سنی تھی یا بعد میں، اس لیے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے، اور اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: "الرد على البكري" میں لکھا ہے کہ:
"اور بارش کے لیے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر کھڑکی کھولنے کے بارے میں روایت بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے، نہ ہی اس کی سند ثابت ہے، اس کے جھوٹ ہونے کی دلیل میں یہی کافی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں [چھت کی جانب ] کوئی کھڑکی تھی ہی نہیں، یعنی وہ ایسے ہی تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تھا، گھر کا کچھ حصہ چھتا ہوا تھا اور کچھ کھلا تھا، اور کھلی جانب سے گھر میں سورج کی روشنی بھی آتی تھیں، جیسے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب دھوپ آپ کے صحن میں ہوتی تھی، ابھی تک سایہ نہیں آیا ہوتا تھا۔ پھر یہ گھر ولید بن عبد الملک کے دور تک اسی طرح رہا ، پھر جب ولید نے اپنے عہد میں مسجد کی توسیع کی تو ان گھروں کو بھی مسجد نبوی میں شامل کر لیا، تو اس وقت سے یہ حجرے مسجد نبوی میں شامل ہو گئے، اور پھر قبر مبارک والے سیدہ عائشہ کے حجرے کے اردگرد بلند دیوار بنائی، اور اس میں یہ کھڑکی رکھی گئی تا کہ صفائی ستھرائی کے لیے اگر کوئی آنا چاہیے تو یہاں سے نیچے اتر سکے، لہذا یہ کہنا کہ یہ طاقچہ سیدہ عائشہ کی زندگی میں موجود تھا تو یہ سفید جھوٹ ہے۔" ختم شد
دوم:
نیز اس اثر میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حاجت روائی کا مطالبہ جائز ہے، اس روایت میں ایسی کوئی بات دور یا قریب سے آپ کو نظر نہیں آئے گی، زیادہ سے زیادہ اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد بھی آپ کا مقام بہت بلند تھا، اور یہی بات امام دارمی کے اس حدیث پر قائم کردہ باب سے عیاں ہوتی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد اطہر کی برکت ، اور آپ کی اللہ تعالی کے ہاں عزت بہت بلند ہے۔ اب اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مسلمان آپ کی قبر پر آئیں اور حاجت روائی کا مطالبہ کریں، صحابہ کرام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، [زیادہ سے زیادہ ان سے جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ] انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرے کی چھت کی جانب طاقچہ کھول دیا تھا، کسی نے بھی یہ نہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی بارش نازل کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں، نہ ہی انہوں نے اپنی حاجت روائی کے لیے آپ سے دعائیں مانگیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "اقتضاء الصراط المستقيم"کے صفحہ:(338) میں کہتے ہیں:
"قبروں کے پاس دعائیں مانگنے کے لیے جانا اور یہ سمجھنا کہ یہاں پر دعائیں کسی اور جگہ کے مقابلے میں زیادہ قبول ہوتی ہیں، یہ غیر شرعی کام ہے، اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بالکل اجازت نہیں دی، پھر کسی بھی صحابی، تابعی، یا مسلمانوں کے ائمہ کرام میں سے کسی نے یہ کام نہیں کیا، پھر سلف صالحین میں سے کسی نے ایسے عمل کا تذکرہ بھی نہیں کیا، بلکہ اس بارے میں جو کچھ بھی نقل کیا جاتا ہے وہ دوسری صدی ہجری کے بعد کا ہے۔
حالانکہ صحابہ کرام نے کئی بار اپنی زندگی میں قحط سالی کا سامنا کیا، اس کے علاوہ بھی انہیں سنگین نوعیت کی پریشانیوں سے گزرنا پڑا، توکیا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر آکر بارش مانگی، یا حاجت روائی کا مطالبہ رکھا؟!
بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروا کر بارش طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر آ کر بارش نہیں مانگی۔
بلکہ یہاں تک ذکر کیا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر سے پردہ ہٹایا تا کہ بارش ہو جائے؛ کیونکہ آپ کی قبر پر رحمت نازل ہوتی ہےسیدہ عائشہ نے آپ کے پاس بارش کی دعا نہیں فرمائی، نہ ہی قبر کے پاس جا کر حاجت روائی کا مطالبہ کیا۔" ختم شد
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں صوفیوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سے استغاثہ ، یا آپ کی ذات یا جاہ کا وسیلہ دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم