اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

"دبر الصلاة" یعنی نماز کے آخر میں دعا اور ذکر سے کیا مراد ہے؟

104163

تاریخ اشاعت : 05-10-2015

مشاہدات : 21018

سوال

"دبر الصلاة" یعنی "نماز کا آخری حصہ" اس سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ سلام سے پہلے ہے؟ یا سلام کے بعد ، اور کیا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا مسنون ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

"دبر الصلاة"   یعنی "نماز کا آخری  حصہ یا بعد والا حصہ"

بہت سی احادیث میں  نماز کے آخری حصہ میں دعائیں کرنے کی ترغیب  دی گئی ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1-  بخاری (6330) مسلم (594) میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز  سے سلام پھیرتے تھے فرماتے: ("لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ ، وَلَهُ الْحَمْدُ ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ" [یعنی: اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، وہ یکتا  ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کیلئے تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،  یا اللہ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جسے تو روک دے اسے کوئی دینے والا نہیں، اور  تیرے ہاں کسی کی شان و شوکت  اس کے کام نہیں آئے گی])

2- بخاری:  (6329)  نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے بیان کیا ہے کہ: "[غریب]صحابہ کرام نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! صرف مالدار لوگ  درجات ، اور دائمی نعمتیں  حاصل کر گئے ہیں" آپ  نے فرمایا: (وہ کیسے؟) تو انہوں نے کہا: "وہ ہماری طرح نمازیں بھی پڑھتے ہیں، ہماری طرح جہاد بھی کرتے ہیں، اور وہ اضافی اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، لیکن ہمارے پاس مال ہے ہی نہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں ایسی  چیز نہ بتاؤں جن سے تم سابقہ لوگوں  کے درجات پا لو گے، اور تمہارے بعد آنے والے لوگوں سے آگے ہی رہو گے، پھر تم سے آگے وہی بڑھ سکے گا جو تمہارے جیسا عمل کرنے لگے، تم ہر نماز کے بعد 10 بار سبحان اللہ، 10 بار الحمد للہ، اور 10 بار تکبیر کہو)"
بخاری (843) میں یہ بھی ہے کہ: (تم "خلف كل الصلاة"  یعنی: ہر نماز کے بعد 33، 33 بار سبحان اللہ، الحمد للہ، اور اللہ اکبر کہو)
جبکہ مسلم (595)کی روایت میں ہے کہ: (تم "دبر كل الصلاة"  یعنی ہر نماز کے بعد 33، 33 بار سبحان اللہ، الحمد للہ، کہو اللہ اکبر کہو)

3- مسلم (596) نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت  کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بار  بار کہے جانے والے کچھ کلمات ہیں  جنہیں ہر نماز کے بعد کہنے والا  کبھی نقصان میں نہیں ہو سکتا: 33 بار سبحان اللہ، 33 ، اور 34 بار اللہ اکبر)
ان روایات میں  " دبر الصلاة " سے مراد  نماز میں سلام پھیرنے کے بعد کا وقت ہے، جیسے کہ کچھ روایات میں اس کی وضاحت  موجود ہے، اسی طرح  نمازوں کے بعد آیۃ الکرسی اور معوّذات پڑھنے  سے متعلق احادیث میں " دبر الصلاة " کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے، اور اس سے مراد سلام کے بعد ہی ہے۔

4- ابو داود (1522) نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے ہاتھ کو پکڑا، اور فرمایا: (معاذ! اللہ کی قسم ! میں تم سے محبت کرتا ہوں) دوبارہ پھر فرمایا: (اللہ کی قسم! میں تم سے محبت کرتا ہوں) اس کے بعد فرمایا: (معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے آخری حصہ میں تم  لازمی یہ کہا کرو: " اَللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ "[یعنی: یا اللہ! میری اپنے ذکر، شکر اور بہترین عبادت کیلئے مدد فرما]) اس حدیث کو البانی نے "صحیح  ابو داود" میں صحیح کہا ہے۔

یہی روایت نسائی: (1303) میں ان لفظوں کیساتھ ہے: (ہر نماز میں یہ کہنا مت بھولو کہ: " اَللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ "[یعنی: یا اللہ! میری اپنے ذکر، شکر اور بہترین عبادت کیلئے مدد فرما]) اس حدیث کو  البانی نے "صحیح نسائی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

یہاں حدیث کے عربی الفاظ میں " دبر الصلاة " سے مراد  نماز کا سلام سے پہلے والا آخری حصہ ہے، کیونکہ کسی بھی  چیز کا "دبر" اسی میں شامل ہوتا ہے، نیز اس بات کی سنن نسائی کی روایت  سے بھی تاکید ہو جاتی ہے، اس میں الفاظ ہیں: " في كل صلاة "

ابن قیم رحمہ اللہ "زاد المعاد" (1/294) میں کہتے ہیں کہ :
"احادیث کے الفاظ: "دبر الصلاة"   سے مراد سلام سے پہلے اور سلام کے بعد دونوں ہو سکتے ہیں، چنانچہ ہمارے شیخ [یعنی: ابن تیمیہ رحمہ اللہ] سلام سے پہلے ہونے کو ترجیح دیتے تھے، تو میں نے ان اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے کہا: "کسی بھی چیز کی " دبر " اسی میں شامل ہوتی ہے، جیسے " دبر الحيوان" یعنی حیوان کی پیٹھ، حیوان ہی میں شامل ہے"" انتہی

5- ترمذی: (3499) ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:  "یا رسول اللہ! کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (رات کے آخری حصہ میں ، اور فرض نمازوں کے آخر میں) اس حدیث کو ترمذی  اور البانی نے  حسن کہا ہے۔
اس حدیث میں " دبر الصلوات المكتوبات" سے مراد سلام سے پہلے کا حصہ ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو امامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث اگر صحیح ثابت ہے تو " دبر الصلوات المكتوبات"  سے مراد  نماز کا آخری حصہ ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (13/268)

اہل علم اس بارے میں  ایک اصول ذکر کرتے ہیں کہ :
اگر احادیث میں   "دبر الصلاة"   کی قید کے ساتھ   آنے والے تسبیح ، تحمید ، تکبیر، اور آیت الکرسی  یا معوذات  جیسے ذکر و اذکار  ہوں تو  اس  وقت "دبر الصلاة"   سے مراد نماز کے بعد   ہوگا۔

اور اگر "دبر الصلاة"   کی قید کے ساتھ آنے والی نصوص دعا پر مشتمل ہو تو  پھر "دبر الصلاة"   سے مراد  نماز کا آخری حصہ یعنی سلام سے پہلے کا وقت ہوگا۔

لیکن اگر کسی نص میں  دعا سے متعلق واضح  ہو جائے کہ وہ دعا سلام کے بعد ہی کرنی ہے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (سلام کے بعد تین بار "استغفر اللہ "کہو) تو یہ دعا ہونے کے باوجود بھی  سلام کے بعد ہی پڑھی جائے گی، کیونکہ اس کے بارے میں احادیث میں صراحت موجود ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"جن احادیث میں "دبر الصلاة"   کے بعد کثرت سے دعا ، اور ذکر و اذکار کی ترغیب دی گئی ہے، ان احادیث میں "دبر الصلاة"   سے کیا مراد ہے؟ نماز کا آخری حصہ یا سلام کے بعد  کا وقت؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"احادیث میں مذکور "دبر الصلاة"   کا لفظ سلام سے پہلے اور نماز کے آخری حصہ پر بھی بولا جاتا ہے، اور سلام کے فوری بعد والے وقت پر بھی بولا جاتا ہے، اس بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں، اور ان احادیث میں سے دعا کیساتھ تعلق رکھنے والی احادیث میں "دبر الصلاة"   سے اکثر طور پر  نماز کا آخری حصہ مراد ہے، یعنی سلام سے پہلے کا وقت، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  تشہد سکھایا، اور پھر آپ نے فرمایا: (پھر اپنی پسندیدہ دعا  اختیار کرتے ہوئے اسے مانگے) جبکہ ایک حدیث میں الفاظ ہیں کہ: (اس کے بعد جو مانگنا چاہے مانگ لے) یہ حدیث سب کے نزدیک صحیح ثابت ہے۔

اسی طرح  معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو کہا تھا: (کسی بھی نماز کے آخر میں  یہ کہنا مت بھولو: " اَللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ "[یعنی: یا اللہ! میری اپنے ذکر، شکر اور بہترین عبادت کیلئے مدد فرما])اس روایت کو ابو داو، ترمذی اور نسائی نے صحیح سند کیساتھ ذکر کیا ہے

اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ   سے نقل کیا ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے آخری حصہ میں فرمایا کرتے تھے: (اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ[یعنی: یا اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بخیلی سے، میں تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی سے، میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے ادھیڑ عمر  میں [تنہا] چھوڑ دیا جاؤں، اور میں تیری  پناہ چاہتا ہوں  دنیاوی آزمائشوں اور عذاب قبر سے])

جبکہ  "دبر الصلاة"   کی قید کیساتھ  بیان کیے جانے والے ذکر و اذکار  کے متعلق  صحیح احادیث میں صراحت موجود ہے کہ  یہ ذکر و اذکار سلام پھیرنے کے بعد  پڑھے جائیں گے، مثال کے طور پر  نمازی چاہے امام ہو یا مقتدی یا منفرد سب   سلام کے بعد تین بار "أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ"  کہہ کر  "اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ، وَمِنْكَ السَّلاَمُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالْإِكْرَامِ"   [یعنی:  یا اللہ! تو ہی سلامتی والا ہے، تیری طرف سے ہی سلامتی ہے، یا ذوالجلال و الاکرام! تو ہی بابرکت  ہے ]پڑھیں گے، اس کےبعد  امام مقتدیوں کی جانب چہرہ کر کے بیٹھ جائے گا، پھر  اس ذکر اور استغفار کے بعد امام اور مقتدی  سب یہ دعائیں پڑھیں گے:" لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَلاَ نَعْبُدُ إِلاَّ إِيَّاهُ, لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الكَافِرُونَ، اَللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ" [یعنی: اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، وہ یکتا  ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کیلئے تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،   نیکی کرنے کی طاقت اور برائی بچنے کی ہمت صرف اللہ کے ذریعے ہی ممکن ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں  ہے، اور ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے، [ہم اقرار کرتے ہیں کہ]اسی کی نعمتیں، فضل، اور عمدہ تعریف و ثنا ہے، [ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ]اللہ کے سوا کوئی  معبود بر حق نہیں ہے،  ہم صرف اسی کیلئے عبادت  کرتے ہیں، چاہے کافروں کو برا لگے، یا اللہ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جسے تو روک دے اسے کوئی دینا والا نہیں، اور  تیرے ہاں کسی کی شان و شوکت  اس کے کام نہیں آئے گی] ان اذکار کے بعد  تمام نمازی چاہیں مرد ہو یا خواتین   33 بار سبحان اللہ، 33 بار  الحمد للہ، 33 بار اللہ اکبر کہیں پھر 100 مکمل کرنے کیلئے پڑھیں: " لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [یعنی: اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، وہ یکتا  ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کیلئے تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے] "اس انداز سے نماز کے بعد اذکار کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح  احادیث میں ثابت ہے۔

اس کے بعد  ایک بار آہستہ آواز میں آیۃ الکرسی پڑھنا  مستحب ہے، اسی طرح  سورہ اخلاص، سورہ الفلق اور سورہ الناس ہر نماز کے بعد آہستہ آواز میں ایک بار پڑھے،  لیکن مغرب اور فجر کے بعد مذکورہ سورتوں کو 3، 3 بار پڑھنا مستحب  ہے۔

اسی طرح تمام نمازیوں کیلئے مغرب اور فجر کی نماز کے بعد  دس بار " لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمدُ، يُحْيِيْ وَيُمِيْتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [یعنی: اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے، وہ یکتا  ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اسی کیلئے تعریفیں ہیں، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے] " کہے، اس بارے میں بھی صحیح احادیث وارد ہیں" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس مسئلے میں غور و فکر کرنے والے کیلئے یہ بات عیاں ہوگی  کہ "دبر الصلاة"   کی قید  کیساتھ  بیان کیا جانے والا  اگر ذکر ہے تو وہ نماز  سے سلام پھیرنے کے بعد ہے، اور اگر دعا سے اس کا تعلق ہے تو پھر اس کا نماز کے آخری حصہ سے تعلق ہوگا۔

پہلی بات  کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے نماز کے بعد کا وقت  ذکر و اذکار کیلئے مخصوص کیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(فَإِذَا قَضَيْتُمْ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ)
ترجمہ: چنانچہ جب تم نماز مکمل کر لو، اللہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے، اور لیٹتے ہوئے [ہر وقت] کرو۔[النساء:103]

اور احادیث مبارکہ آیت  میں مذکور ذکر کی تفصیل بیان  کرتی ہیں، مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے ہر نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ کہا۔۔۔) چنانچہ ایسی احادیث  جن میں اذکار کو "دبر الصلاة"   کی قید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، انہیں نماز کے بعد  ہی رکھا جائے، تا کہ  قرآنی آیت کیساتھ مطابقت  پیدا ہو ۔

جبکہ دوسری بات کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری تشہد کے بعد  کا وقت دعا کیلئے مختص فرمایا ہے، چنانچہ وہ تمام احادیث جن میں "دبر الصلاة"   کی قید کیساتھ دعائیں بیان کی گئی ہیں  ان میں "دبر الصلاة"   سے مراد نماز کا سلام سے پہلے والا آخری حصہ مراد ہوگا، تا کہ یہ دعائیں ایسے وقت میں پڑھی جائیں جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کیلئے مختص کیا ہے، تا ہم اگر کسی دعا کے بارے میں واضح نص ہو جس میں سلام سے پہلے دعا کرنے کی ممانعت  کا پہلو ہو ، یا جس سیاق میں دعا ذکر کی گئی ہے اس میں  دعا سلام کے بعد کرنے  کا اشارہ ملتا ہے تو پھر سیاق کے مطابق ہی عمل کیا جائے گا" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (13/268)

دوم:

نماز کے بعد  دعا کیلئے ہاتھ اٹھانا شرعی عمل نہیں ہے؛ کیونکہ  ایسی کوئی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔

چنانچہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (7/103) میں ہے کہ:
"فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت نہیں ہے، چاہے تنہا امام  ایسے کرے یا مقتدی ہاتھ اٹھا کر دعا کرے، یا پھر اجتماعی دعا کروائی جائے، بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نہ ہی  صحابہ کرام  سے ایسا ثابت  ہے، جبکہ  ہاتھ اٹھائے بغیر دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس بارے میں احادیث ملتی ہیں" انتہی
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (21976) اور (7886) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب