الحمد للہ.
اول:
اجتماعی طور پریکجا آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ سنت نبویہ
میں ایسے کرنا ثابت نہیں ، اور عبادات میں بنیادی اصول توقیف [دلیل ہو تو عمل کیا
جائے ورنہ توقف اختیار کیا جائے] ہے، چنانچہ جب تک عبادت کی کیفیت، وقت ، جگہ ، اور
تعداد کے بارے میں صحیح دلیل نہیں ملتی ، اس وقت تک کسی عبادت کو مذکورہ [چاروں
اشیاء میں سے کسی کے ساتھ] مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔
شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بدعت دین میں خود ساختہ طریقے کو کہتے ہیں جسے شریعت کے برابر سمجھا جائے، بدعت
پر عمل کا مقصد عبادت الہی میں مبالغہ ہوتا ہے۔۔۔ اور اسی میں مخصوص کیفیت، اور
مخصوص انداز سے عبادت کرنا بھی شامل ہے، مثلاً: ایک آواز میں اجتماعی ذکر کرنا،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن کو عید کا دن بنانا، وغیرہ۔
انہی بدعات میں مخصوص عبادات کو کسی شرعی دلیل کے بغیر خاص اوقات کے ساتھ مختص
کرنا بھی شامل ہے، مثلاً: نصف شعبان کے دن روزے کی پابندی کرنا، اور نصف شعبان کی
رات قیام کرنا" انتہی
"الاعتصام" (1/37-39)
اور اگر قرآن کریم کی اجتماعی طور پر بآواز بلندتلاوت کی جائے جس کی وجہ سے
حاضرین اور ذکر کرنے والوں کو تکلیف پہنچے تو یہ زیادہ حرام کام ہے،جیسا کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے عموم سے ثابت ہوتا ہے آپ نے فرمایا: (خبردار! جب تم
میں سے کوئی نماز میں کھڑا ہو تا ہےتو وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے، چنانچہ اسے دھیان
رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے رب سے کیا مناجات کر رہا ہے، اور نماز میں کوئی ایک دوسرے
کی تلاوت سے اونچی تلاوت مت کرے)
مسند احمد: (4928) شعیب ارنؤوط نے اسے صحیح کہا ہے۔
تاہم مجلس میں ایک شخص تلاوت کرے، اور باقی اس کی تلاوت سنیں ، یا سب باری باری تلاوت کریں ، یا سب کے سب مسجد میں بیٹھے ہوں اور اپنی اپنی تلاوت اس انداز سے کر رہے ہوں کہ کوئی دوسرے شخص کو پریشانی میں مبتلا نہ کرے، اور سب بیک آواز تلاوت نہ کر رہے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ قربِ الہی کا شرعی طریقہ اور اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔
چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۔۔۔اور کوئی بھی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کو پڑھتی پڑھاتی نہیں ہیں، مگراللہ کی طرف سےان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمتِ الہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں، اور اللہ تعالی انکا ذکر اپنے پاس فرماتا ہے)مسلم: (2699)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فصل: اکٹھے ہو کر تلاوت ِقرآن کے استحباب ، تلاوت کرنے والے، اور سامعین کے
فضائل، اور لوگوں کو ترغیب اور شوق دلا کر اس طرح جمع کرنے والے کی فضیلت کے بارے
میں" یہ عنوان قائم کرنے کے بعد آپ کہتے ہیں: "ذہن نشین رہے کہ: اکٹھے ہو کر تلاوت
کرنا، واضح ترین دلائل ، سلف صالحین ، اور انکے بعد آنے والوں کے عمل سے ثابت ہے"
اس کے بعد انہوں نے مذکورہ بالا حدیث سمیت دیگر احادیث بھی بیان کیں۔
دیکھیں: "التبیان فی آداب حملۃ القرآن" (72-74)
اس کے بعد مستقل ایک فصل ذکر کی: "باری باری قرآن مجید کی تلاوت کرنا" اس کی وضاحت
کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ : کچھ لوگ اکٹھے ہو جائیں اور ان میں سے کوئی دس آیات یا کچھ
حصے کی تلاوت کرے، پھر وہ خاموش ہو جائے، اور دوسرا وہیں سے شروع کرے جہاں تک پہلے
شخص نے پڑھا تھا، اسے کے بعد تیسرا پڑھے، یہ انداز جائز اور اچھا ہے، امام مالک سے
اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: "اس میں کوئی حرج نہیں" انتہی
ماخوذ از: التبيان (74)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ذکر الہی کیلئے اکٹھے ہونا، اور قرآن مجید کو سننا، اور دعا کرنا یہ سب نیک اعمال
ہیں، بلکہ یہ عمل قربِ الہی اور عبادت کیلئے سب سے افضل اعمال میں شامل ہے، چنانچہ
صحیح [بخاری] میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: (بیشک اللہ
تعالی کے کچھ فرشتے زمین پر اڑتے پھرتے ہیں، اور جس وقت ذکر الہی میں مشغول لوگوں
کے پاس سے گزریں توآپس میں صدائیں لگاتے ہیں: "یہاں آجاؤ تمہارے مطلب کی چیز
ہے")شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک اور حدیث بھی ذکر کی جس میں [فرشتوں کی وضاحت]ہے
کہ: (ہم نے (کچھ لوگوں کو) تیری تسبیح، اور حمد بیان کرتے ہوئے پایا)"
یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضرری ہے کہ اس طریقہ کار کو کبھی کبھار کیا جائے، کیونکہ
مستقل اور دائمی طریقہ کار اسی انداز کو اپنا یا جاتا ہے جو ہمیں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہے، لہذا صرف پانچوں نمازوں، عیدین، اور جمعہ وغیرہ
میں پابندی کے ساتھ اجتماعیت اپنائی جائے گی۔
جبکہ نماز، تلاوت، ذکر الہی، یا صبح و شام ، اور رات کے لمحات میں اپنی عبادات پر
انفرادی پابندی کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے سب نیک بندوں کی
شروع سے لیکر آج تک عادت رہی ہے۔
اس لئے جن اعمال کو اجتماعی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا مثلا: فرض
نمازیں وغیرہ تو انہیں اجتماعی طور پر کیا جائے گا، اور جن اعمال کو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے انفرادی طور پر کیا ہے انہیں انفرادی طور پر کیا جائے گا، جیسے کہ
صحابہ کرام بسا اوقات اکٹھے ہو کر کسی ایک کو کہتے کہ : تم قرآن کریم کی تلاوت
سناؤ، تو باقی سب خاموشی سے سنتے تھے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:
"ابو موسی! ہمیں ہمارے رب کی یاد دلاؤ، تو وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے، اور باقی
سب غور سے سنتے"
کچھ صحابہ کرام یہ بھی کہتے: "ہمارے ساتھ کچھ دیر بیٹھو ایمان کی باتیں کرتے ہیں"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار اپنے صحابہ کرام کو نفلی نماز پڑھائی، اسی طرح
اہل صفہ کے پاس آپ گئے اور وہاں قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی تھی تو آپ تلاوت سننے
کیلئے ان کے ساتھ بیٹھ گئے" انتہی
مجموع الفتاوى (22/521)
دائمی کمیٹی کے فتاوی (4/112) میں ہے کہ: "مسجد میں اکٹھے ہو کر قرآن کی تلاوت کا
کیا حکم ہے؟"
"جواب: سوال میں اجمال ہے، تاہم اگر یہ مقصود ہے کہ سب بیک آواز ایک ہی جگہ سے
اجتماعی طور پر پڑھتے ہیں تو یہ شرعی عمل نہیں ہے، کم از کم یہ مکروہ ضرور ہے،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہی نہیں ہے، نہ
ہی صحابہ کرام سے منقول ہے، لیکن اگر یہ طریقہ کار سیکھانے کیلئے ہو تو امید ہے کہ
اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
اور اگر سوال کا مقصود یہ ہے کہ وہ لوگ قرآن کریم سیکھنے کیلئے یا حفظ کرنے کیلئے
جمع ہوتے ہیں، پھر ان میں سے ایک شخص تلاوت کرتا ہے، اور باقی سنتے ہیں، یا ان میں
سے ہر کوئی اپنی اپنی تلاوت کرتا ہے، دوسرے کی آواز سے اپنی آواز نہیں ملاتا، تو یہ
جائز ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: (اور کوئی بھی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر
اللہ کی کتاب پڑھتی پڑھاتی نہیں ہے، مگر ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ
لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں، اور اللہ تعالی انکا ذکر اپنے پاس
فرماتا ہے)مسلم" انتہی
اسی طرح (2/480) میں ہے کہ:
"قرآن کریم کی تلاوت ، اور تدریس کیلئے اس طرح جمع ہونا کہ ایک شخص تلاوت کرے، اور
باقی تلاوت سنیں اور تلاوت شدہ آیات کی تدریس اور تفسیر بیان کی جائے ، تو یہ عمل
شرعی ہے، اور قرب الہی کا ذریعہ ہے، اللہ تعالی اسے پسند فرماتے ہوئے اجر جزیل سے
نوازتا ہے، چنانچہ صحیح مسلم اور ابو داود نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی
ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اور کوئی بھی قوم اللہ کے گھروں میں سے
کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب پڑھیں، اور ایک دوسرے کو پڑھائیں، تو ان پر سکینت
نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں، اور
اللہ تعالی انکا ذکر اپنے پاس فرماتا ہے) "انتہی
دوم:
سجدہ تلاوت ، تلاوت کرنے والے، اور غور سے سننے والے کیلئے مسنون ہے ،تاہم ایسے شخص
کیلئے سجدہ تلاوت نہیں ہے جس کے کان میں سجدہ تلاوت والی آیت کی آواز پڑے، اور غیر
ارادی طور پر وہ آیت سن لے۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/361) میں کہتے ہیں:
"سجدہ تلاوت والی آیت پڑھنے والے، اور غور سے سننے والے کیلئے سجدہ تلاوت مسنون
ہے، اور اس کے مسنون ہونے کے بارے میں کسی کا اختلاف ہمارے علم میں نہیں ہے، اس کیلئے
ہماری ذکر کردہ روایات دلیل ہیں، ان کے علاوہ بخاری، مسلم، اور ابو داود نے ابن
عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خارج از
نماز کسی سورت کی تلاوت سناتے، تو آپ بھی سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے،
یہاں تک کہ ہم میں سے کچھ کو اپنی پیشانی رکھنے کیلئے جگہ نہ ملتی۔
تاہم غیر ارادی طور پر سجدہ تلاوت کی آیت سننے والے کیلئے سجدہ تلاوت مستحب بھی
نہیں ہے، یہی موقف حضرت عثمان، ابن عباس، اور عمران رضی اللہ عنہم سے منقول ہے،
اسی کے امام مالک قائل ہیں، جبکہ اصحاب الرائے کا کہنا ہے کہ غیر ارادی طور پر سننے
والے شخص کیلئے سجدہ کرنا ضروری ہے، اسی سے ملتا جلتا موقف ابن عمررضی اللہ عنہما
، نخعی، سعید بن جبیر، نافع، اور اسحاق رحمہم اللہ سے منقول ہے؛ ان کے بقول کیونکہ
ایسے شخص نے آیت سجدہ سنی ہے، اس لئے اس شخص پر بھی اُسی طرح سجدہ ہوگا، جیسے غور
سے سننے والے شخص پر ہوتا ہے۔
جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں ایسے شخص پر سجدہ لازم نہیں سمجھتا، لیکن
اگر اس نے سجدہ کر لیا تو اچھا ہے۔
[عدم استحباب پر]ہماری دلیل یہ ہے کہ جو عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ : وہ
ایک قصہ گو شخص کے پاس سے گزرے ، تو قصہ گو شخص نے سجدہ تلاوت والی آیت پڑھی، تا کہ
عثمان رضی اللہ عنہ بھی اسی کے ساتھ سجدہ تلاوت کرنے [پر مجبور ہو جائیں]، لیکن
عثمان رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہ کیا، اور فرمایا: "سجدہ تلاوت اس شخص پر جو غور سے
سجدہ تلاوت والی آیت سنے" جبکہ ابن مسعود اور عمران رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "ہم
اسے سننے کیلئےتو نہیں بیٹھے " اور سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہم اس کیلئے
چلیں گے بھی نہیں" اسی طرح کی بات ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، اور ان کے
زمانہ میں کسی سے مخالف رائے منقول نہیں ہے، البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول
ہے کہ: "سننے والے پر سجدہ ہے" تو انکی بات سے احتمال یہی ہے کہ انکے نزدیک بھی ایسے
شخص پر ہی سجدہ ہے جو ارادۃً سنے، لہذا انکے اس قول کو اسی مطلب پر محمول کیا جائے
گا، تا کہ تمام اقوال یکجا ہو جائیں؛ مزید برآں سامع [غیر ارادی طور پر سننے والے]
کو مستمع [غور سے سننے والے] پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ پہلے کو ثواب نہیں
ملتا، جبکہ دوسرے کو سننے پر ثواب مل رہا ہوتا ہے" انتہی
واللہ اعلم.